اس کے بعد اب سے کچھ دیر قبلمسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مولانا فضل الرحمان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور سیاسی حکمت عملی اورپی ڈی ایم اتحاد کے لائحہ عمل پر مشاورت کی۔
دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ استعفوں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کے جواب کا انتظار ہے، پیپلزپارٹی آتی ہے تو ٹھیک ورنہ 9 جماعتیں لائحہ عمل دیں گی۔
لیکن اس منظر نامے میں نیا دور کے ذرائع کی جانب سے تازہ ترین خبر یہ آئی ہے کہ آصف علی زرداری کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن سے ایک اعلیٰ سطحی رابطہ کیا ہے تاکہ انکے گزشتہ خطاب سے پیدا ہونے والے ماحول کے بعد برف پگھلائی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے فوری طور پر اس پیش رفت سے نواز شریف کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بات چیت میں پیشرفت پر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے اور صورتحال کو قابو میں لانے پر بات ہوگی۔
یاد رہے کہ دو روز قبل پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں آصف علی زرداری نے نواز شریف پر تنقید کے نشتر برسائے تھے جس کے ردعمل میں مریم نواز نے انہیں جواب دیا تھا۔
پی ڈی ایم کے اجلاس میں خطاب کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ میاں صاحب پلیز پاکستان تشریف لائیں۔ نواز شریف اگر جنگ کے لئے تیار ہیں تو لانگ مارچ ہو یا عدم اعتماد کا معاملہ، انہیں وطن واپس آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وطن آجائیں ہم استعفے انکو دے دیں گے۔ اسمبلیوں کو چھوڑنا عمران خان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ ہم پہاڑوں پر سے نہیں بلکہ پارلیمان میں رہ کر لڑتے ہیں۔ دوسری جانب مریم نواز نے آصف علی زرداری کو انکی تنقید پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انکے والد کی جان کو کطرہ ہے ایسے میں وہ کیسے ملک میں واپس آئیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آصف علی زرداری ان کے والد کی جان کے تحفظ کی گارنٹی دیں تو وہ واپس آجائیں گے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ جمہوری قوتوں نے دھاندلی کا سامنا کیا ہے، میں نے اپنی زندگی کے 14 برس جیل میں گزارے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں، میں نے پارلیمان کو اختیارات دیئے۔ ایسے فیصلے نہ کریں کہ جس سے راہیں جدا ہوجائیں۔