برطانوی عدالت نے اے آر وائی نیوز چینل پر سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کے من گھڑت الزامات عائد کرنے پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ اے آر وائی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے تحریری طور پر اسحاق ڈار سے معافی بھی مانگ لی ہے۔
نیو ویژن ٹیلی ویژن کی جانب سے اسحاق ڈار سے معذرت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 8 جولائی 2019ء کو دی رپورٹرز پروگرام نشر ہوا جس میں چودھری غلام حسین اور صابر شاکر نے دعویٰ کیا کہ اسحاق ڈار نے حکومت پاکستان کا پیسہ چرایا اور وہ ملک واپس آنے کی اجازت پر چرائی گئی رقم واپس کرنے پر آمادہ تھے۔
https://twitter.com/Wabbasi007/status/1450155627435765765?s=20
ٹیلی ویژن چینل نے اپنے معافی نامے میں لکھا کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اسحاق ڈار کے بینک اکائونٹس کا سراغ لگا لیا گیا ہے جن میں چرائے گئے لگ بھگ ایک ارب ڈالرز موجود ہیں۔ پروگرام میں مزید تبصرے کیے گئے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سحاق ڈار نے کسی فرد کو موت کی دھمکیاں دلوائیں تاکہ وہ فرد پاکستان سے باہر چلا جائے۔
معافی نامے میں کہا گیا ہے کہ ہم اسحاق ڈار کا موقف تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔ اول یہ کہ انہوں نے حکومت پاکستان کا کوئی پیسہ نہیں چرایا۔ دوئم یہ کہ اسحاق ڈار کے کسی بینک اکائونٹ کا سراغ نہیں ملا۔ نتیجتاً پیسے چرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سوئم یہ کہ اسحاق ڈار کی جانب سے پاکستان واپیسی کی اجازت ملنے کی شرظ پر پیسہ واپس کرنے کا دعویٰ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ اور چہارم یہ کہ اسحاق ڈار نے کسی فرد کو موت کی دھمکیاں نہیں دیں۔
https://twitter.com/Xadeejournalist/status/1450151967934799876?s=20
تحریری معافی نامے میں لکھا گیا ہے کہ 8 اگست 2019ء کو پاور پلے پروگرام نشر ہوا جس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب وداخلہ نے دعویٰ کیا کہ اپنے دور میں اسحاق ڈار پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ذمہ دار تھے اور انہوں نے انتہائی سرگرم اور غیر مناسب طریقے سے یونٹ کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو اہم اداروں کے سسٹم تک رسائی نہیں ہونے دی گئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسحاق ڈار کے اقدامات کا مقصد چودھری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں بعض افراد کا تحفظ تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم اسحاق ڈار کا موقف تسلیم کرنے پر تیار ہیں کہ انہوں نے کبھی فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا انتظام نہیں سنبھالا۔ یونٹ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ یونٹ براہ راست سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس لیے اسحاق ڈار نے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے قیام میں کوئی رکاوٹ ڈالی نہ انہوں نے ایسا کوئی کام کیا۔