کرونا وائرس، ملک کے ایک بڑے فیمنسٹ اور انکی بیگم

کرونا وائرس، ملک کے ایک بڑے فیمنسٹ اور انکی بیگم
ملک کے ایک بڑے فیمنسٹ  حادثاتی طور پر میرے دوست بن گئے۔ ویسے وہ خود کو سوشیالوجسٹ کہتے ہیں لیکن عورتوں کے حقوق کے بڑے داعی کے طور کہلائے جاتے ہیں اور ایک خود میں ہی ایک بڑے فیمنسٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ انکی بیگم سے بھی علیک سلیک ہے۔ میرے لئے ہمیشہ یہ بات کافی دلچسپی کا باعث رہی کہ میں بیگم صاحبہ سے پوچھوں کہ وہ ایک بڑے فیمنسٹ کی بیگم ہونے کے ناطے کیسا محسوس کرتی ہیں۔ اب چونکہ کرونا کا عالم ہے اور ہر کوئی فارغ بیٹھا بور ہو رہا ہے ایسے میں انہوں نے سکائپ پر ایک انٹرویو دیا جس میں ہم نے  ان کی بطور ایک بڑے فیمنسٹ کی بیگم کے زندگی پر بات کی ۔  جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

سوال: آپ فیمنزم پر یقین رکھتی ہیں؟ کبھی خواتین کے حقوق اور دیگر بحثوں کا حصہ بنی ہوں؟ آپ یا بس یہ شوہر کا کام ہے؟

جواب: دیکھیں بحثوں کا حصہ بننے کا کیا مطلب؟ بحث تب کروں میں کسی کے ساتھ جب میرے لئے کوئی مسئلہ متنازع ہو؟ عورتوں کے حقوق متنازع نہیں ہیں وہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے جسے کون تبدیل کر سکتا ہے؟ سو میں نہیں بحثتی! میں کوشش کرتی ہوں کہ کسی کا حق نہ ماروں۔ کوئی میرا حق مارے یہ ہو نہیں سکتا! سمپل ہے۔ باقی رہ گئی فیمنزم تو میں برابری والے اصول کو زندگی میں اپلائی کرتی ہوں بجائے ٹولیوں میں بیٹھ کر گفتگو کرنے کے۔

 

سوال:یہ بتایئے کہ آپ کی زندگی کیسی گزر رہی ہے ؟ ایک فیمنسٹ کے ساتھ؟ آپ کو تو فخر ہوتا ہوگا؟

ارے بھائی !  میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ فیمنسٹ بندہ نہیں ہوسکا! مرد فیمنسٹ کیسے ہو سکتے ہیں کیوں کہ وہ ہمارے حق کو لئے ہوئے ہیں تو فیمنزم کے نتیجے میں برابری آئے گی تو انہیں اپنی حقوق کی جائداد سے دستبردار ہونا پڑے گا تو وہ کیسے اس کے حق میں کھڑا ہوسکتا ہے۔ اور مڈل کلاس مرد تو کبھی بھی نہیں۔  اب زندگی کی جہاں تک بات رہ گئی تو کیا بتاؤں ؟ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے!

سوال: نہیں پھر بھی کچھ روشنی ڈالئے؟

بھائی ! میرے شوہر ہیں  میں انکی برائی نہیں کر رہی ۔۔ بس تب تک ہی فیمنسٹ ہوتےہیں جب تک کہ انکو غصہ نہ آجائے۔  ٹی وی شوز میں محفلوں میں بتاتے ہیں کہ کیسے دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہے لیکن جب انکی کی کوئی بات نہ سنے اور ان کے موقف سے متفق نہ ہو اندر ہی اندر شدید غصے میں ابل رہے ہوتے ہیں۔ پھر وہی غصہ لے کر گھر آجاتے ہیں کسی بھی بات پر بحث شروع ہو اور میں اگر کوئی اور موقف لے لوں تو بس پھر ۔۔۔ کہاں رہ جاتا ہے ففیمنسٹ اور کہاں ہوتے ہیں میرے شوہر نامدار۔۔

اچھا؟ تو کیا ہوتا ہے۔

جواب: ہونا کیا ہے؟ میں رائے کے حق کو مانگتی ہوں تو انکو فوری لگتا ہے کہ ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے خوش رہنے کے بنیادی حق کے تحت ہمیں فوری علیحدہ ہو جانا چاہیئے۔  در اصؒ ئہ بحث کو دبانے کا انکا ہتھیار ہوتا ہے۔

اوہ! تو پھر؟ مطلب کہ آپ کیا کہتی ہیں؟

میں نے کیا کہنا ہے معاملے کو ٹھنڈا کرتی ہوں ، آپکو معلوم ہی ہے خواتین کی دو آنکھیں رشتوں میں لگی آگ جلدی بھجا سکتی ہیں بہ نسبت کسی فائر برگیڈ کے جسے کسی عمارت کی آگ بھجانی ہو۔ اب انکو کون سمجھائے کہ بھائی صاحب جس برابری کے حق کے تحت آپ رشتہ توڑ کر آگے نکلنے کی بات کرتے ہیں وہ اصول فیمنزم کے بنیادی اصولوں کی یوں نفی ہے کہ اسکے برے اثرات اور اس عمل کی قیمت عورتوں کے لئے زیادہ ہے مردوں کے لئے کم۔ لیکن کیا کریں ؟ اب انکے لئے وہ مسٹر آلویز رائٹ ہیں۔

سوال: مسٹر آلویز رائٹ؟ اس کا مطلب میں نہ مانوں؟

 

جواب: ہاں ہاں! تو اور کیا ! موصوف میں دلائل دینے کی قوت تو ہے اس میں تو کوئی شک نہیں۔ کہانی بننے میں بھی ملکہ ہے لیکن صاحب آپ سے بہتر بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ہر کسی کا ایک بیانیہ ہے آپ کو یہ سمجھنا پڑے گا۔ لیکن نہیں۔ وہ کیا ہوتا ہے؟ صرف ہم ہی ٹھیک ہیں! باقی تو سب صاحب آرا لوگ ردی کی ٹوکری ہی کا نصیب ہونے چاہیں۔

سوال : نہیں تو وہ تو ویسے عورت مارچ پر بھی جاتے ہیں وہاں عورتوں کے حقوق کے لئے تقاریر بھی کرتے ہیں تو گھر میں ۔۔۔؟

ہاں کرتے ہیں سب کرتے ہیں اور پھر گھر میں آکر چاہتے ہیں کہ انکی تعریف و توصیف ان تمام لوازمات کے ساتھ کی جائے جو ان کا معیار ہے۔ چونکہ میرا بیک گراونڈ سوشل سائنسز کا نہیں ہے تو میں اکادمی بحث بھی نہیں کرتی ۔ اب بھائی نہیں کرتی تو نہیں کرتی۔ جب تعریف کا معیار انکے مطابق نہیں ہوتا تو اس پر بھی خفا ہوجاتے ہیں جس کا اظہار کسی اور موقع پر کسی اور طریقے سے ہوجاتاہے۔

سوال: تو آج کل کرونا کا دور ہے ۔۔۔ تو

جواب: ہاں کرونا کی سن لو ۔  بھئی پچھلے دنوں میرے کزن کا انتقال ہوگیا۔ کل موت فوت کے وقت  کرونا کی سیفٹی کو لے کر دو مختلف زاویوں پر بات ہو رہی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ میت کے لواحقین کو چاہیئے تھا کہ وہ کرونا سے متعلق حفاظتی اقدامات کو نافذ کرواتے میں نے کہہ دیا کہ انکی حالت کیا تھی کہ وہ ایسا کر بھی سکتے وہاں آئے لوگوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ اس پر نجانے کیا ہوا کہ وہ بھڑکے اور ایسا ایسا فینزم کا مظاہرہ کیا کہ میں باز آئی۔

 

باقی ہاں تم دیکھنا اس روداد کوبھی عجیب فکشن بنا کر لکھ ڈالیں گے۔ چونکہ اصل کہانی ہو گی فیمنسٹوں کے ہاں اسے سراہا جائے گا اور نئی بحثیں چھڑیں گی۔ شوہر صاحب کو داد ملے گی۔ اور یوں ہی چلتا رہے گا۔