میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ ہفتے افغان صوبہ کنڑ اور خوست میں تحریک طالبان کے مراکز پر جیٹ طیاروں نے نہیں بلکہ پاکستانی ڈرون نے میزائل حملے کئے تھے۔
ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے افغان سرحد کے قریب اپنے گاؤں آباد کر لئے ہیں۔ افغان حکومت پر کئی بار زور دیا گیا کہ وہ تحریک طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں یا ان کے خلاف کارروائی کریں جس میں وہ ناکام رہے، اسی لئے مجبوری میں اپنے دفاع کے لئے ہمیں یہ اقدام اٹھانا پڑا۔
خیال رہے کہ حال ہی میں شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے 7 جوانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس سے ایک روز پہلے ایک میجر اور سپاہی شہید ہوئے۔ ڈی آئی خان میں پولیس موبائل پر میزائل حملہ کیا گیا۔ اس صورتحال میں پاکستان نے افغان سرحد پر کارروائی کا فیصلہ کیا اور باقاعدہ مصدقہ اطلاعات پر ان مراکز کو نشانہ بنایا گیا جہاں پر ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر موجود تھے۔
رمضان المبارک کی شروعات سے ہی خیبرپختونخوا کے سابق قبائلی اضلاع شمالی وزیرستان، باجوڑ میں پاکستانی فوج پر حملے کئے۔ ٹانک میں فوجی کیمپ پر حملہ کیا گیا اور یرغمال بنانے کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق ڈرون حملوں کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، اسی لئے انہوں نے علاقہ کی ناکہ بندی کرکے کسی کو حتیٰ کہ افغان طالبان کو آنے نہیں دیا تاکہ حملے کے دوران ہلاک ہونے والے اہم کمانڈروں کی ہلاکت چھپا سکے۔ تاہم انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ آئندہ چند دنوں میں اس حوالے سے مزید تفصیلات جاری کر دی جائیں گی۔
حکام نے واضح کیا ہے کہ افغان سرحد کے قریب تحریک طالبان کے ان مراکز کو نشانہ بنایا گیا جہاں گذشتہ مہینے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ان حکام کے مطابق جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا وہ تحریک طالبان پاکستان کے قبضہ کئے گئے علاقے ہیں جو خود افغان طالبان کے لیے نوگو ایریاز ہیں۔