نواز شریف عوام سے زیادہ اشرافیہ اور تاجروں کے ہمدرد ہیں

آزادی سے لے کر اب تک جس طبقے نے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے لیے سب سے زیادہ مشکلات پیدا کی ہیں، نواز شریف اس کے بلا شرکت غیرے رہنما ہیں۔ ان کو امیر کاروباری تاجروں کی آج بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کم ٹیکس دینے کے باوجود تمام تر ریاستی سہولیات کے مزے لوٹ رہا ہے۔

نواز شریف عوام سے زیادہ اشرافیہ اور تاجروں کے ہمدرد ہیں

'جب تاجر، جن کے دلوں پر دولت کی حکمرانی ہو، کسی قوم کے حکمران بن جائیں تو وہ قوم تباہ و برباد ہو جاتی ہے'۔ (افلاطون، رپبلک)

الیکشن 2024 میں صرف 19 روز باقی ہیں اور قوم گہری مایوسیوں کا شکار ہے۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں اس طرح کے سرد اور عوام سے لا تعلق انتخابات نہیں ہوئے ہوں گے۔ کچھ نام نہاد تجزیہ کاروں کے مطابق تو اب بھی انتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات ہیں۔ ایران کے سرحد پار سے دہشت گردوں پر حملوں کا ذکر اور تجزیہ کرتے ہوئے 17 جنوری 2024 کے درجن سے زائد ٹاک شوز میں واشگاف الفاظ میں اعلان تک کر دیا گیا کہ سرحدوں پر تین اطراف سے خطروں کے پیش نظر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر الیکشن کو حالات کے بہتر ہونے تک ملتوی کر دینا چاہیے۔ یہ فیصلہ تو اب الیکشن کمیشن آف پاکستان عدالت عظمیٰ سے رجوع کر کے ہی کر سکتا ہے، وہ بھی اگر نگران وفاقی کابینہ قومی سلامتی کو خطرے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر کر دے۔ ابھی تو نگران وزیر اعظم ڈیووس، سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کے مزے لے رہے ہیں اور قومی سلامتی کو اگر خطرہ ہوتا تو وہ دورہ مختصر فرما کر واپس آ چکے ہوتے اور اب تک قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر چکے ہوتے! ان کا ردعمل تو ہرگز اشارہ نہیں دے رہا کہ ہماری قومی سلامتی کو کوئی بھی خطرہ لاحق ہے۔ عسکری قیادت کا بھی کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا جس کی بنیاد پر پہلے سے تاخیر شدہ انتخابات کے ملتوی ہونے کا عندیہ ملتا ہو۔

پاکستان کو درپیش تمام اندورنی و بیرونی خطرات اور مسائل سے اغماض برتتے ہوئے ہمارے ایک عظیم قومی رہنما، تین مرتبہ وزیر اعظم کا اعزاز پانے والے اور اب تمام مقدمات سے بری، وطن واپسی کے بعد پر امید ہیں کہ منصب اعلیٰ پھر ایک بار حاصل کر لیں گے۔ ان کے انتہائی قابل، برادر خورد، سابق وزیر اعظم فتویٰ دے چکے ہیں کہ بلا ان کے بھائی نواز شریف نے نہیں، بلکہ عدالت عظمیٰ نے چھینا ہے اور وجہ ان کے بقول پاکستان تحریک انصاف کے وکلا کی نالائقی تھی کہ وہ محترم ججز کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے۔ اس ضمن میں ملک کے ایک نامور دستوری ماہر قانون کا ایک مقبول ٹاک شو میں جواب منیر نیازی کے اس شعر میں تھا:

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

آزادی سے لے کر اب تک جس طبقے نے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ (وفاقی اور صوبائی دونوں) کے لیے سب سے زیادہ مشکلات پیدا کی ہیں، نواز شریف اس کے بلا شرکت غیرے رہنما ہیں۔ ان کو امیر کاروباری تاجروں کی آج بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کم ٹیکس دینے کے باوجود تمام تر ریاستی سہولیات کے مزے لوٹ رہا ہے۔ اگرچہ ان کی طرف سے ادا کردہ ٹیکس کل قومی محصولات میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں (2 فیصد انکم ٹیکس اور 1 فیصد سیلزٹیکس)، لیکن وہ سیاست میں اپنی بالادستی قائم رکھتے ہیں۔ بطور ایک لابی، سیاست دانوں پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اور ریاستی اہل کاروں کو رشوت دیتے ہوئے وہ اپنے متعلق ہونے والی کسی بھی قانون سازی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ٹیکس وصول کرنے والی ریاستی مشینری کو بے اثر کر کے رکھ دیتے ہیں۔

اس بات کے شاکی اور سب سے پرجوش نقاد محترم سید محمد شبّر زیدی ہیں، جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) رہے۔ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایکسائز اور کسٹم ڈیوٹی کے بارے میں کی گئی قانون سازی کی تاریخ ایسی شقوں سے بھری ہوئی ہے جن میں تاجروں کی طرف سے شٹر ڈاؤن کی دھمکیوں اور پر تشدد مظاہروں کے بعد ترامیم کرنا پڑیں اور قانون سازوں کو طاقتور تاجروں کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ محترم نواز شریف کے تین اقتدار حکومت میں جاری کردہ مختلف ایس آر اوز پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تاجر طبقہ کتنا طاقتور رہا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ محترم نواز شریف ناجائز منافع، غیر ٹیکس شدہ آمدنی اور اثاثوں کو ٹیکس کی چھوٹ کی مختلف سکیموں کے ذریعے تحفظ دیتے رہے ہیں۔ چاہے 1970 کی دہائی کی خود تشخیصی سکیم، سپیشل نیشنل فنڈ بانڈز ہوں، 1980 کی دہائی کی آسان خود تشخیصی سکیم ہو، 1990 کی دہائی کے بعد کے فارن کرنسی اکاؤنٹس یا فارن ایکسچینج بیئرر سرٹیفکیٹس ہوں یا موجودہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا بدنام سیکشن 111 (4) ہو، ان تمام اقدامات نے اُن تاجروں کو فائدہ پہنچایا جن میں سے زیادہ تر مسلم لیگ ن کے حامی ہیں۔

کم ترین اہداف مقرر کرنے مگر ان کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہنے والے ایف بی آر کو ایک ایسے ادارے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو ٹیکس چوروں کے مفاد کو تحفظ دینے میں مختلف حکومتوں کا دست و بازو بنتا ہے۔ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی شرح ظاہر کرتی ہے کہ کل آبادی کا 3 فیصد سے بھی کم لوگ ہیں اگرچہ پیشگی انکم ٹیکس ادا کرنے والے موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 120 ملین ہے۔

سابقہ روایت کے عین مطابق تیسری مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے پر نواز شریف نے ٹیکس میں ایک مرتبہ پھر چھوٹ کی سکیم SRO 1065(I)/2013 کا اعلان کیا۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد کاروباری طبقے کی طاقتور لابیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے نتیجے میں محصولات میں شدید کمی واقع ہوئی تھی۔ جون 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وفاقی حکومت کاروباری طبقے سے ٹیکس وصول کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ نواز شریف نے حلف اٹھانے کے بعد تاجروں کے لیے جن غیر معمولی مراعات کا اعلان کیا، ان میں معیشت کو دستاویزی کرنے میں چھوٹ دینا سب سے نقصان دہ قدم تھا۔ اس وقت کے ایف بی آر کے چیئرمین نے آن ریکارڈ تسلیم کیا کہ ایس آر اوز کی مد میں دی گئی مختلف مراعات کی وجہ سے تقریباً دو تہائی درآمدات ڈیوٹی فری تھیں۔

اور کچھ نہیں تو ایسے ایس آر اوز پر ہی نظرثانی کر لی جاتی، تو بھی ایف بی آر کی ڈیوٹی کی وصولی کم و بیش دگنی ہو سکتی تھی۔ اگر انڈر انوائسنگ، فلائی انوائسز، جعلی ریفنڈز اور اسی طرح کی بے شمار لیکیج کو بند کر دیا جاتا تو ایف بی آر کے محصولات میں 3 گنا اضافہ ہو سکتا تھا مگر شریف خاندان کے اپنے کاروباری مفادات کے پیش نظر ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ جب ان کو عدالت عظمیٰ کے متنازعہ فیصلے کے بعد پہلے اقتدار اور پھر جماعت کی قیادت سے فارغ کیا گیا تو شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم کے طور پر بدنام زمانہ 2018 کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجرا کیا جس میں ٹیکس چوروں کے نام خفیہ رکھنے کی ضمانت دی گئی اور اس کا اطلاق 10 سال قبل عہدہ رکھنے والے سرکاری ملازمین اور منتخب افراد پر بھی کر دیا۔ یہ ریاست کی جناب سے بدعنوانی کو قانونی طور پر معاف کرنے کی بد ترین مثال تھی جس کو بلند بانگ دعوؤں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ختم تو کیا کرنا تھا، ایسی ہی سکیم کا اجرا خود 2019 میں کیا۔ دونوں مرتبہ نیشنل اسمبلی نے ایک غیر قانونی منی بل کو بھاری اکثریت سے منظور کیا۔

المیہ یہ تھا کہ اس صورت حال کے باوجود اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل، اسد عمر، حفیظ شیخ اور شوکت ترین سمیت تمام وزیر خزانہ حضرات اعلان کرتے رہے کہ 'معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے'۔ حقیقت یہ ہے کہ قابل ادا ٹیکس کا دو تہائی چوری ہوتا رہا اور یہ سب کچھ ان حضرات کی ناک کے نیچے ہوتا رہا۔ پتہ نہیں درست سمت سے ان کی کیا مراد رہی ہے؟

چیئرمین ایف بی آر آج بھی شکایت کرتے ہیں کہ موجودہ اور سابق حکومتوں کی طرف سے غیر معمولی رعایت اور چھوٹ دینے کی پالیسی کی وجہ سے ان کا ادارہ ہدف کے مطابق ٹیکس وصول کرنے سے قاصر رہا ہے، تاہم ہر حکومت کے وزیر خزانہ حسب معمول خودستائی کی عادت سے مجبور ہو کر مقامی اور غیر ملکی میڈیا کو بتاتے ہیں کہ 'میں ایف بی آر کی کارکردگی سے بہت خوش ہوں'۔

ہمارے سیاست دان طاقتور تاجر برادری اور ریاستی اشرافیہ کو ٹیکس میں دی گئی چھوٹ، پرکشش مراعات اور ان کی طرف سے ٹیکس قوانین کی پامالی سے جان بوجھ کر اغماض برتتے ہیں۔ وہ کیا جواز پیش کر سکتے ہیں جب 24 کروڑ کی آبادی کے ملک میں سے 15 ہزار سے بھی کم افراد نے 10 لاکھ سے زائد ٹیکس واجب الادا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کروایا ہو؟ کیا مہنگی گاڑیوں اور عالیشان وسیع وعریض مکانات اور جاگیرداروں کے دیس میں صرف غریب غربا ہی بستے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں 35 سے 40 لاکھ انتہائی دولت مند افراد موجود ہیں اور ان کی آمدنی دیکھتے ہوئے صرف ان سے ہی 3 ہزار بلین روپے تک انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔ جب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنتے ہی نواز شریف کی طرف سے 'ٹیکس ریلیف پیکج' کا اعلان کیا گیا تو اسحاق ڈار نے بہت فخر سے کہا کہ 'حکومت نے بہت قلیل مدت میں تاجر برادری کے 26 میں سے 25 مطالبات مان لیے ہیں'۔ اعلان کردہ ایمنسٹی سکیم کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ خود مسلم لیگ ن کے حامی تاجروں اور صنعت کاروں نے بھی اس سے فائدہ اٹھانے کی زحمت نہ کی۔ ملک بھر میں سے صرف 3 ہزار افراد نے اس سکیم سے استفادہ کرتے ہوئے 100 ملین روپوں سے بھی کم رقم ادا کی۔ تاہم اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے اسحاق ڈار نے ایف بی آر کے افسران کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔ 15 اپریل 2014 کو چیف کمشنرز کانفرنس کے موقع پر انھوں نے کہا کہ 'اگر آپ لوگوں نے اہداف کے حصول میں مجھے مایوس کرنا جاری رکھا تو میں اپنا دفتر کیو بلاک سے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز منتقل کر لوں گا'۔

ٹیکس ریلیف پیکج کا اس لیے فائدہ نہیں ہوا تھا کیونکہ لوگ اس وقت انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 111 (4) اور اکنامک پروٹیکشن ایکٹ 1992 کے تحت کہیں زیادہ سہولیات حاصل کر لیتے تھے۔ وہ منی ایکسچینج ڈیلروں اور بے ایمان ٹیکس مشیران کے ساتھ ساز باز کر کے بہت فائدہ اٹھا لیتے تھے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ ان بدنام زمانہ قوانین کو ختم کرنے میں تاجر حکمران کے سامنے کون سی رکاوٹ حائل تھی؟ یہ قوانین لوگوں کو غیر اعلان کردہ اثاثوں اور کالے دھن (ایسی رقوم جن پر ٹیکس ادا نہ کیا گیا ہو) کو سفید کرنے میں بہت ہی معاون ثابت ہوا۔ ان قوانین کی وجہ سے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں جانا پڑا، جس سے نکلنے میں 4 سال لگ گئے۔

نواز شریف اور اسحاق ڈار کی ان قوانین کی طرف رغبت ظاہر کرتی تھی کہ وہ منی لانڈرنگ کو جرم نہیں سمجھتے اس لیے وہ اس کو قانونی تحفظ فراہم کرتے رہے۔ تاجر برداری کے علاوہ شریف خاندان کی اپنی کمپنیز جیسے کہ حدیبیہ پپیر ملز نے بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عدلیہ نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ مقصد تو یہ تھا کہ اگر بیرونی ممالک سے فارن کرنسی میں رقوم بھجوائی جائیں اور ریاست کو زرمبادلہ دے کر پاکستانی کرنسی حاصل کر لی جائے تو ٹیکس حکام کوئی سوال نہ پوچھ سکیں، نا کہ غیر اعلان کردہ اثاثوں اور کالے دھن کو سفید کر لیا جائے۔ اس کی وجہ سے ہنڈی اور حوالے کے کاروبار کو بھی عروج ملا۔ سب کی نظروں کے سامنے ان قوانین کا انتہائی مضر استعمال ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے لیکن ارباب اختیار آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں، بلکہ چاہتے ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھانے والے ایک مرتبہ پھر اقتدار کے مزے لوٹیں۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔