تحریک انصاف کی طرف سے اب یہ تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پہلے وہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوئے ہیں، اب موجودہ حکمرانوں کو ان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ واہ کیا بھولا پن اور سادگی کا امتزاج ہے۔ اعتراف بھی کرتے ہیں اور داد کے بھی طلب گار ہیں۔
اتنے بھولے ہیں کہ آدھا سچ بولتے ہیں جو اپنے فائدے اور دوسرے کی بدنامی کا حصہ ہوتا ہے۔ اقتدار میں پہنچنے کے قیمتی راز کبھی نہیں بتائیں گے۔ کیا کچھ حاصل کیا؟ کبھی نہیں بتائیں گے۔ جلسے جلوسوں میں پانی کی طرح جو پیسہ بہاتے ہیں، وہ کہاں سے آیا ہے؟ کبھی نہیں بتائیں گے۔
عوام بھی کتنے سادہ ہیں، الیکشن کو انٹرٹینمنٹ سمجھ کر چند دن کی خوشی کا سامان سمجھ لیتے ہیں اور اپنے ووٹ کی طاقت کو پھر سے اپنی ہی تباہی کے لئے ان بہروپیوں کو سونپ دیتے ہیں۔
کتنے بھولے ہیں یہ سیاستدان، جب اقتدار میں پہنچتے ہیں تو ان کو خزانہ خالی ہونے کی خبر ملتی ہے اور یہ عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین کو بھرنے پر بیٹھا دیتے ہیں اور قرضوں کا کھاتہ عوام کے نام لکھوا دیتے ہیں۔
کتنے سادہ ہیں یہ عوام کہ جب غربت، مہنگائی اور بیروزگاری تنگ کرتی ہے تو سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے اپنا سر پیٹتے ہوئے تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور کسی مسیحا کے آسمان سے اترنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔
کتنے بھولے ہیں یہ سیاستدان کوئی بھی دور ہو اپنی ساری ترغیبوں، توانائیوں اور چاپلوسیوں کے ساتھ طاقت کے محلوں میں خواہ وہ آمریت ہو یا ہائبرڈ جدیدیت، عوامی خدمت کی خاطر کوئی بھی اعتراض کئے بغیر حاضر ہو جاتے ہیں۔
ان کی یہی ادا طاقت کے ایوانوں میں سب کو بھاتی ہے۔ عوام بھی اپنی ہر دل عزیز غلامی کو سینے سے لگائے روٹی اور کپڑے کی تلاش میں واہ واہ کئے جا رہے ہیں۔
کتنے بھولے ہیں یہ سیاستدان جب معاشی مشکل میں ہوتے ہیں تو اتنی دولت کے باوجود خالی ہاتھ جوڑ کر عوام سے صبر اور برداشت کی درخواست کرتے ہیں اور کتنے سادہ ہیں عوام وہ اپنے ملک وقوم کی خاطر فاقوں کو بھی غنیمت سمجھ لیتے ہیں۔
نہ وہ انداز بادشاہت بدلا ہے نہ وہ اسیر غلامی کے کشکول بدلے ہیں، نہ تو قابض چہرے بدلے ہیں اور نہ ہی کاروائی کے طریقہ کار۔ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی بنفس نفیس ہمارے پاس آئی تھی۔ ہمیں تجارت سکھانے اور اب ہم ان کے پاس جاتے ہیں معیشت کے ہنر سیکھنے۔
نہ وہ انداز سیاست بدلے ہیں نہ وہ رموز حکومت۔ نہ وہ بیوروکریسی کا دبدبا بدلا ہے نہ سادہ عوام کی جی حضوری۔ بدلی ہے تو آقاؤں کے پیروکاروں کی ایک نسل اور اس ملک کے حقیقی وارثوں، غربت کے پسے عوام کی ایک نسل۔
ہماری وفاداری، بھولے پن اور سادگی کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ ہمیں آزادی سے پہلے کے بنے ہوئے قوانین بدلنے کی ضرورت، فرصت یا ہمت نہیں ہوئی۔ ہمارے دیوانی، فوجداری قوانین اور ضابطے ابھی تک دور غلامی کے ہیں۔ ہم نے قوانیں بہت بنائے ہیں مگر انہی قوانین اور ضابطوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے۔ ہماری دین سے محبت کی مثال اس سے بڑی کیا ہوگی کہ ہم نے اپنے ماخذ غلافوں میں لپیٹ کر چومنے کے لئے رکھے ہوئے ہیں اور جدید حکومتیں انہیں اپنے اصول و ضوابط کا اساس بنائے ہوئے ہیں۔
اسلامی بینکاری منافع بخش نمونے کے طور پر کنوینشل بینکنگ سے ایک قدم آگے ہے اور ہم سودی نظام کے تحفظ کے لئے عدالتوں سے اپیلیں کر رہے ہیں اور اپنی انانیت اور غلامانہ ذہنیت کو سہارا دینے کی خاطر نعروں کی دنیا میں چلے ہیں عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے۔
اسے بھولا پن کہوں، سادگی یا منافقت کی انتہا کہ ایک ہاتھ میں کشکول ہے اور دوسرے ہاتھ میں سگار سلگائے وسائل سے مالا مال ریاست کے نام نہاد والی وارث وسائل سے خالی ریاستوں کی ڈیجیٹل دنیا کی اعدادی نظام پر چلتی معیشت سے سہارا مانگنے کے لئے ان کے پاؤں پڑے ہیں اور ساتھ ان کو دل ہی دل میں برا بھلا بھی کہے جا رہے ہیں۔
ہمارے بھولے پن اور سادگی کا حال دیکھئے کہ اس ملک میں سیاستدان اور ہیں اور حکمران اور، عوام کے نام پر عیاشیاں کرنے والے اور ہیں اور غربت کی چکی میں پسنے والے ملک کے برابر کے وارث عوام اور۔
عوامی خزانے سے مستفید ہونے والے طبقہ کی ذہنیت دیکھئے کہ وہ اپنے نظام اور سالمیت کو سب سے بڑا خطرہ ان پڑھ اور سادے عوام کو سمجھتے ہیں جن کا ان کے رہنے کی جگہ ریڈ زون میں داخلہ بھی ممنوع ہے اور عوام کی خون پسینے کی کمائی اور قومی وسائل سے مہیا وسائل اور سہولیات سے آراستہ ان کے رہن سہن اور معمولات کو وہ عوام کی نظروں سے بھی اوجھل رکھے ہوئے ہیں۔
ان کے بچوں کے سکول اور ان کے علاج کے لئے ہسپتال اور اور اگر اس ملک کے برابری کے حقوق رکھنے والے عوام نے ان سہولیات سے فائدہ اٹھانا ہو تو انہیں کانوں کی بالیاں اور بھینس بکری بیچ بٹا کر وہاں پہنچنا نصیب ہوتا ہے۔
کیا اس سادگی، بھولے پن اور شاطر پن کو دنیا کا کوئی غیر جانبدار، باشعور انسانی ذہن جواز مہیا کر سکتا ہے۔ اور اگر کوئی اس بارے بات کرے ملکی تو سالمیت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
عوام کے بھولے سیاستدان، شاطر بیوروکریٹ، مطلب پرست محافظ اور نام نہاد منصفی سب خزانے کے ساہوکار بھی بنے ہوئے ہیں اور نقب کے سرغنہ بھی اور عوام کو بڑے دلکش ملی نغمے" یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسبان اس کے "اور "سب سے پہلے پاکستان " جیسے مسحور کن نعروں کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ ایسے بھولے پن، سادگی اور منافقت سے اللہ کی پناہ۔
وسائل سے مالا مال اس ملک کو صرف انتظامی معاملات کے لئے مخلص دیانتدار اور محب وطن قیادت کی ضرورت ہے جس کے تجربات کی کوشش میں ملک کا کباڑا ہوگیا ہے مگر ہمارا طرز سیاست اور حکومت اس کو پانے سے قاصر ہے۔ بہرحال اس کا حل عوام کی سوچ کے پاس ہے مگر وہ ابھی اتنی پختہ نہیں ہوئی کہ اس کو حاصل کر پائے۔