گزشتہ چار سال میں 42 پاکستانی صحافی قتل ہوئے جبکہ قتل ہونے والے صحافیوں کے کیسز میں سے صرف ایک میں ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے۔ قتل ہونے والے صحافیوں کی تفصیل سینیٹ میں پیش کر دی گئی.
وزارت اطلاعات کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے چار سالوں میں پنجاب میں 15، سندھ میں 11، کے پی میں 13 اور بلوچستان میں 3 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ چار سالوں میں مجموعی طورپر 42 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔
پنجاب میں 15، سندھ 11، خیبر پختونخوا 13 اور بلوچستان میں 3 صحافی قتل ہوئے، پنجاب میں صحافیوں کے قتل پر 26 ملزمان کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ صحافیوں کے قتل پر 7 ملزمان گرفتار اور 2 ضمانت پر ہیں۔ پنجاب میں صحافیوں کے قتل پر 5 ملزمان انڈر ٹرائل اور 8 مفرور جبکہ 3 ملزمان پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں اور ایک کو بری کردیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں 11صحافیوں کے قتل کے بعد 11ملزمان کے خلاف کارروائی کی گئی، صحافیوں کے قتل پر 4ملزمان گرفتار، 7 انڈر ٹرائل ہیں۔
خیبرپختونخوا میں صحافیوں کے قتل کے الزام میں 13ملزمان کے خلاف کارروائی کی گئی، جن میں سے 4 ملزمان انڈرٹرائل، 2بری، ایک مفرور اور 6 متفرقات ہیں۔
جبکہ بلوچستان میں صحافیوں کے قتل کے الزام میں 5ملزمان کے خلاف کارروائی کی گئی۔
وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ چار سال کے دوران صحافیوں کے قتل کے کیسز میں سے صرف ایک میں ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ وزارت داخلہ صحافیوں کے قتل کے بارے میں جامع رپورٹ سینیٹ میں جمع کروائے۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ وزارت اطلاعات بے خبر ہے بلوچستان میں تین نہیں 10سے زائد صحافی قتل ہوئے ہیں۔ حکومت بلوچستان کے صحافیوں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے۔
سینیٹر مشاق احمد نے کہا کہ حامد میر، ابصار عالم اسد طور، مطیع اللہ جان پرحملوں میں ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ اگر ان تمام صحافیوں کے ملزم پکڑے جاتے تو ارشد شریف شہید نہ ہوتے۔ ہم صحافیوں کا خون کن کے ہاتھوں پر تلاش کریں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ایک صحافی حق اور سچ کی تلاش میں اپنی جان گنوادیتا ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ صحافی کس کے خلاف سرگرم تھے تو قاتل بھی باآسانی پکڑے جائیں گے۔