کیا سورج گرہن دنیا کے خاتمے کا وقت شروع ہونے کی وارننگ ہے؟

کیا سورج گرہن دنیا کے خاتمے کا وقت شروع ہونے کی وارننگ ہے؟
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سورج گرہن لگے گا۔  اس اعلان کے ساتھ ہی مخلتف قسم کی تھیوریاں بازار میں گرم ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس وقت جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو سورج گرہن اپنے عروج پر یا اختتام پذیر ہوگا ۔ تاہم اس بات کا خدشہ ہے کہ  اس سے متعلق مفروضے  آپ کی نفسیات پر نہ صرف حاوی ہو چکے ہوں گے بلکہ ہمیشہ کے لئے وہیں رہنے کا بندوبست بھی کر چکے ہوں گے۔ مثال کے طور پر سورج گرہن کے دوران خطرناک شعاعیں نکلتی ہیں جس سے آنکھیں متاثر ہوتی ہیں اور اس وقت سورج کی جانب دیکھنے والا اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔  پھر یہ کہ اگر حاملہ خواتین گرہن کے دوران  باہر نکلیں تو انکے حمل ضائع ہو سکتے ہیں۔ پھر مذہبی افراد کے ہاں مقبول مفروضہ کہ سورج گرہن قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے سمیت دیگر کئی دیگر سنسنی خیز مفروضے  افواہوں کے بازار میں خوف کے بیوپاری اٹھائے پھر رہے ہوتے ہیں۔

  لیکن کیا یہ مفروضے درست ہیں؟ ان میں کوئی واقعاتی شہادت موجود ہے ؟ کیا سائنسی طور پر کوئی دلیل ان کو ثابت کرتی ہے ؟ اس حوالے سے عمومی جواب نہیں میں ہے۔ سورج گرہن سے جڑی اعتقادی و توہم پرستانہ افواہوں پر مبنی ان مفروضوں کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں سورج گرہن کی تاریخ اور اس سے جڑے معاشرتی اعتقادات کا مختصر اور طائرانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔ 

سورج گرہن ہے کیا؟

سورج گرہن ایک فلکیاتی عمل ہے۔ جس میں  حرکت کے دوران  چاند  زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے جس سے سورج کی روشنی زمین تک پہنچ نہیں پاتی اور اسکی جگہ ایک سایہ تشکیل ہوتا ہے۔ اس صورتحال کو ہم سورج گرہن کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کا حصہ تین فلکیاتی اجسام کی حرکت سے پیدا ہونے والی positioning  کی وجہ سےتشکیل پاتا ہے۔

 

 

سورج گرہن کے انسانی مشاہدے  کی تاریخ کیا ہے ؟ 

حضرت انسان ہمیشہ سے ہی فلکی اجسام سے مسحور ہو کر کبھی ان سے خوفزدہ رہا ہے تو کبھی ان کو پوجتا رہا ہے۔  تاہم انکی موجودگی انسان کی پیدائش سے پہلے ہی کا عمل ہے اور اسی طرح  سورج گرہن کوئی 10, 100 یا 1000 سال پرانا عمل نہیں بلکہ یہ لاکھوں سال قبل جب کہ انسانی زندگی کا آغاز بھی نہ ہوا تھا تب سے ہوتا چلا آرہا ہے۔  سمجھنے کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سورج گرہن انسانی تاریخ سے پہلے سے جاری عمل ہے۔ لیکن اگر ہم پچھلے پانچ ہزار سالوں پر ہی نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ  3340  قبل از مسیح میں سورج گرہن نے موجودہ آئرلینڈ کے کچھ حصوں کو اندھیرے میں ڈوبا دیا تھا۔ اس حوالے سے معروف کتاب Sun and Empire اہم ہے جس میں سیاسی طور پر سورج گرہن  کی تشریحات کے حوالے سے تفصیلی کام ہے۔  اسی دور سے کچھ سو سال بعد ہی طاعون کی بیماری پھیلنے کے دوران مصرمیں بھی سورج گرہن لگنے کے شواہد تاریخ اور مذہبی کتابوں میں ملتے ہیں ۔

تاہم قدیم چینی ثقافت اور سیاست میں سورج گرہن کا ایک بڑا کردار مانا جاتا تھا۔ 21  سو قبل از مسیح سے 2600  قبل از مسیح چینی معاشرے میں سمجھا جاتا تھا کہ  ایک فلکیاتی اژدھا سورج کو کھا رہا ہے۔ چینی حکمران اسے اپنی حکمرانی کے لئے بد شگونی سمجھتے تھے اور اس فلکیاتی یا آسمانی اژدھے کو قتل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے دربار میں فلکیاتی اور مذہبی افراد رکھے ہوتے تھے جو اس اژدھے کی روک تھام کرتے۔  ہسٹری ڈاٹ کام کے مطابق ایک بار ایک سورج گرہن کے بارے میں پیشگی اطلاع نہ دینے پر بادشاہ کے محل کے دو ماہرین فلکیات ہسی اور ہو  کے گلے کاٹ دیئے گئے۔  

قدیم زمانے کی یونانی  تہذیب میں اسے خداؤں کی ناراضگی سے گردانا جاتا۔  جنوبی امریکا میں یہ مانا جاتا کہ ایک ریچھ دیوتا غصے میں سورج کو کھا جاتا ہے۔ اسی طرح اسی عرصے میں  ویتنام میں یہ سماجی عقیدہ تھا کہ ایک مینڈک سورج کو کھا جائے تو سورج گرہن جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ 2500   تا 3000  کے زمانہ میں قدیم ہندو عقیدے میں سورج گرہن کے بارے میں سمجھا جاتا کہ راہو کے امرت پینے پر دیوتاؤں کی جانب سے اسکا سر قلم کیا گیا اور قلم شدہ سر کو جب سورج کی جانب پھینکا گیا تو وہ اس سورج کو کھا گیا۔  قدیم کوریائی ثقافت میں 1500 قبل از مسیح میں سمجھا جاتا تھا کہ آسمانی کتے جب غصے میں آتے ہیں تو وہ سورج کو چرا لیتے ہیں۔

سامی مذاہب میں سورج گرہن سے جڑے  اعتقادات:

ایگزاڈس 10:22 میں درج ہے کہ جب فرعون نے قیدی اسرائیلیوں کو چھوڑنے سے انکار کیا  تو حضرت موسیٰ نے خدا کے حکم سے مصر کے سائبان پر بازو پھیلایا جس کے نتیجے میں گہرا اندھیرا چھا گیا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دیتا تھا۔

عیسائی عقیدہ میں یہ مانا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہہ سلام کے سولی چڑھنے کے بفوری بعد  سورج گرہن لگا تھا ، آزاد تاریخ دان اس واقعے کو 29 موجود از مسیح یا CE کا واقعہ قرار دیتے ہیں۔ جب ڈیڑھ سے دو منٹ تک آسمان کے سیاہ ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔  عیسیائت میں سورج گرہن کو ایک خدائی پیغام سمجھا جاتا ہے اور مارک  13:24 جوئیل 2:31  اور دیگر حوالاجات انجیل اس کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔

عربوں میں مشہور تھا کہ سوچ گرہن اور چاند گرہن تب لگتا ہے جب زمین پر کوئی بہت بڑا ظلم ہو۔ تاہم رسول اللہ ﷺ نے اسے رد کیا اس حوالے سے ابوموسیٰ اشعری ؓ  سے حمد بن علا تک پہنچی بخاری شریف کی حدیث ہےکہ  ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم ﷺ بہت گھبرا کر اٹھے اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے ۔ آپ ﷺ نے مسجد میں آ کر بہت ہی لمبا قیام ، لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی ۔ میں نے کبھی آپ ﷺ کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا تھا ۔ آپ ﷺ نے نماز کے بعد فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس سے استغفار کی طرف لپکو۔

اس حوالے یہ امر بھی اہم ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی پیدائش سے دو سال قبل  بھی ایک مکمل سورج گرہن سنہ 569 میں لگا تھا جس کے ساڑھے تین منٹ تک جاری رہنے کے شواہد ملتے ہیں۔ عرب اسے اپنی حکمرانی کے زوال کا نشان بھی سمجھتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کے فرزند حضرت ابراہیم کے انتقال سے قبل بھی ایک سورج گرہن کے شواہد ملتے ہیں جس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ کوئی بھی شخص گرہن لگنے سے نہیں مرتا۔

 

سورج گرہن کی وجہ سے خطرناک شعاعوں کا قصہ اور اسکی حقیقت؟

امریکی خلائی ادارے ناسا نے 2017  میں سورج گرہن سے متعلق افواہوں کی تردید کرتیEclipse misconceptions نامی   اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ کہنا کہ سورج گرہن میں اگر سورج کی جانب دیکھا جائے تو سورج سے نکلنے والی مخصوص مضر بینائی شعاعیں  بینائی کو نقصان پہنچاتی ہیں بالکل غلط ہے۔ کیونکہ سورج گرہن کے دوران کوئی نئی شعاعیں نہیں نکلتی بلکہ رف کمزور الیکٹرومیگنیٹک ریز 150 ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے زمین تک پہنچتی پاتی ہیں جو اتنی کمزور ہیں کہ وہ آنکھ کو نقصان نہیں دے سکتیں۔

البتہ گرہن سے پہلے پورے چمکتے سورج کو زیادہ دیر دیکھنے سے آنکھوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے تاہم انسانی آنکھ کا اس کے لئے قدرتی رد عمل یہی ہوتا ہے کہ وہ سورج سے اپنا فوکس  ہٹا لیتی ہیں۔ عام فہم طور پر اگر بیان کیا جائے تو یہ کہ سورج گرہن کہیں سے بھی کیمیائی یا تابکاری کا عمل نہیں ہے بلکہ ایک فزیکل عمل ہے جس میں کسی قسم کی کوئی شعاعیں نہیں نکلتیں، اور چمکتے ہوئے سورج کو اگر ویسے بھی دیکھا جائے تو آنکھوں کو  نقصان ہوتا ہے۔ گو کہ بظاہر سائنسی میلان رکھنے والے پاکستان کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد   چوہدری نے بھی عوام کو اپنی آنکھوں کو بچانے کے لئے بتایا ہے کہ گرہن آنکھوں کے لئے مضر ہو سکتا ہے۔

https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1274001637443592192

کیا حاملہ خواتین کے لئے سورج گرہن میں نکلنا خطرناک ہے؟

اسی رپورٹ کے مطابق یہ مفروضہ بھی افواہ ہے کیوں کہ ہمارے ماحول میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آتی کیونکہ سورج میں کسی قسم کی کوئی نہیں تابکاری نہیں ہوتی۔

سورج گرہین آپکی زندگی میں  ہونے والے حادثے کی تنبیہہ ہے ؟

نفسیاتی ماہرین کے مطابق یہ انسانی نفسیات کی عام واردات ہے جس کے تحت وہ اپنے آپ کو ہر وقت مظلوم اور خدائی نظام میں منفی قوتوں کے زیر اثر قرار دیتے ہوئے اپنی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کی ذمہ داری سے فرار چاہتی ہے۔  ماہرین کے مطابق confirmation bias کی وجہ سے جس کے تحت انسانی نفسیات اپنے ساتھ ہونے والے برے واقعات سے غیر متعلقہ مگر ایک ہی وقت میں ہونے والے دیگر واقعات کو یاد رکھتی ہے اور ان سینکڑوں مواقع کو بھول جاتی ہے جس میں وہ واقعات علیحدہ علیحدہ اور غیر متعلقہ انداز میں ہوئے۔

سورج گرہن  خلا میں کسی بہت بڑے خلائی واقعہ یا حادثے کا پیش خیمہ ہے؟

ناسا کے مطابق اگلے ایک ہزار سال تک کے سورج گرہن کب ہوں گے اس حوالے سے پیشگوئیاں ہو سکتی ہیں۔ اور خلا میں ہونے والے عوامل ایک خاص جیومیٹریکل ترتیب سے ہو رہے ہیں۔ اور سورج گرہن کا کسی سے کوئی تعلق نہیں۔

 

سورج گرہن لگنا دنیا کے خاتمے یا قیامت کی نشانی ہے؟

اسلامی تعلیمات میں واضح ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے کبھی بھی اس حوالے سے کوئی اشارہ صادر نہیں فرمایا۔ جامع بنیوریہ کی ویب سائٹ پر ایک مسئلے کے جواب میں سورج گرہن کے بارے میں کچھ یوں کہا گیا کہ چانداورسورج گرہن اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہےجس سے اللہ رب العزت اپنے بندوں کوتنبیہ فرماتےہیں، اس موقع پردعاواستغفارکا اہتمام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےسورج گرہن کے موقع پر اجتماعی اور چاندگرہن کے موقع پر انفرادی نمازواستغفارکا اوردعاکا اہتمام اورترغیب ثابت ہے۔ اس کےعلاوہ جو کچھ آپ نے ذکر کیاسب توہمات ہیں، حقیقت سےان کاقطعاً کوئی تعلق نہیں اس طرح کے توہمات کے درپے ہونا گناہ ہےاورگناہ سے بچنا چاہیئے۔ دوسری جانب ناسا سمیت تمام خلائی ادارے ایسی کسی بھی بات کو مکمل طور پر رد کر چکے ہیں۔