میں 66 سال کا ایک محب وطن پاکستانی ہوں لیکن میرا سیاست سے کوئی تعلق ہے اور نا ہی میں کوئی صحافی یا دانشور ہوں۔ بہرحال میں نے ملک میں اناج اگانے اور زراعت کو فروغ دینے میں اپنی زندگی کے 50 سال وقف کیے ہیں اور ملکی دفاع کے لئے ہمہ وقت مصروف فوج کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی نہ کوئی قطرہ میرے خون کا بھی شامل ہے۔
میں پچھلے 15 ماہ میں بالعموم اور 9 مئی کے بعد بالخصوص انتہائی گھٹن محسوس کر رہا ہوں تو سوچا گھٹ گھٹ کر مر جانے سے پہلے کیوں نہ اپنے جذبات اور ملکی حالات پر تجزیہ اپنے دوستوں کے سامنے پیش کروں۔
پاک فوج اور 9 مئی کے واقعات
میں ان کروڑوں پاکستانیوں میں شامل ہوں جو اپنے ملک، اس کی مٹی اور فوج سے دیوانہ وار اور لامتناہی محبت کرتے ہیں۔ 9 مئی کے واقعات کے نتیجے میں ملکی و دفاعی تنصیبات کے نقصان پر میرے سمیت ہر پاکستانی رنجیدہ ہے۔
پچھلے 15 ماہ کا پس منظر
اپریل 2022 تک میں کروڑوں پاکستانیوں کی طرح اپنی پاک فوج کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا تھا اور ایسی بات کرنے والوں سے دست و گریباں ہونے تک جا پہنچتا تھا۔ گو میں اب بھی اپنی فوج کے جوانوں سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں لیکن میرے جذبات نے اس وقت کروٹ بدلنا شروع کی جب بند کمروں کے فیصلوں نے میرے پیارے وطن پر چور اور ڈاکوؤں کو مسلط کر دیا جو ایک اقلیت ہونے کے باوجود 70 سے 80 فیصد اکثریت پر حاوی ہو گئے۔
میں نے اپنی زندگی کے پچھلے 14 ماہ اس خوش فہمی میں گزار دیے کہ شاید میرے پیارے دیس میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہونے کے بعد ہم ان چوروں ڈاکوؤں سے تاحیات جان چھڑا لیں گے لیکن 9 مئی کے واقعات اور بعد کے حالات نے میری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ حتیٰ کہ 9 مئی کے واقعات کے فوری بعد منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں کے اعلامیہ میں سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا گیا لیکن حکومتی ٹولے نے نا صرف اس اعلامیے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا بلکہ مذاکرات کے دروازے کو تالا لگا کر چابی بھی گم کر دی۔
مزید ستم یہ کہ اقتدار کی ہوس میں مست پی ڈی ایم حکومت نے انتہائی مکاری سے ملک کے 80 فیصد عوام کو بالعموم اور 65 فیصد جوانوں کو بالخصوص اپنی پیاری فوج کے سامنے لا کھڑا کیا۔
زمینی حقائق
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس 25 کروڑ آبادی والے ملک میں کوئی ایک شخص بھی غدار نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ذاتی خواہشات اور ضروریات کے تحت ایک دوسرے کو غدار کہنے کی روش بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ملک کی اصل طاقت 25 کروڑ عوام اور افواج پاکستان ہیں اور ملک کی بقا کے لیے دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے چند ہفتوں سے محبت وطن لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد گھروں میں سہمی بیٹھی ہے اور یہ کیفیت زندہ قوموں کے لئے نیک شگون نہیں ہوتی۔ یقیناً یہ گھٹن نفرتوں کو اس قدر گہرا کر رہی ہے جس کا کسی بھی مقتدر حلقے کو اندازہ نہیں ہے اور ان کو سب اچھا ہے اور بہت اچھا ہے کی دی گئی فرضی رپورٹس اس خلیج کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔
یقیناً افرادی قوت ہی کسی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتی ہے اور کبھی ملک پر خدانخواستہ کوئی يلغار ہوئی تو یہی سہما ہوا ایک ایک سینہ دشمن کا ایک ایک گولہ ضائع کرنے کے لیے درکار ہو گا۔ یاد رہے کہ جدید دور میں جہاں جدید آلات کے ذریعے پکڑ دھکڑ، نظربندی اور جیل بندی آسان ہوتی ہے وہاں ظلم اور جبر کی خبروں کا پھیلنا بھی تیز تر ہوتا ہے۔ یقیناً فیصلہ سازوں اور تن سازوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
سیاسی جماعتوں کا کردار
پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے کردار کو جاننے سے پہلے کچھ حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ گویا میں جن حقائق سے پردہ اٹھانا چاہ رہا ہوں ان کے متعلق کم از کم میں نے آج تک کسی چینل، دانشور یا اینکر کو بات کرتے نہیں سنا۔ میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ ہم جیسے ترقی پذیر ملکوں اور خاص طور پر جہاں کرپشن عروج پر ہو اور اقتدار کو ہر جائز ناجائز طریقے سے حاصل کرنا روزمرہ کا معمول ہو وہاں پر سیاسی پارٹیوں کی مجموعی زندگی تیس سے چالیس سال پر مشتمل ہوتی ہے۔ کیونکہ اس عرصہ میں اپنی بے پناہ کرپشن اور ہوس اقتدار کی وجہ سے یہ عوام کے سامنے پوری اور بری طرح ایکسپوز ہو جاتے ہیں۔ اس کی واضح مثال مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام ہیں جو کہ اب چند علاقوں تک محدود ہو گئی ہیں۔
لائف سائیکل کا مکمل ہونا درحقیقت ان پارٹیوں کی طبعی موت ہے اور نتیجتاً یہ پارٹیاں کبھی پی ڈی ایم کی صورت میں اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے اور کبھی جوڑ توڑ کرتی نظر آ رہی ہیں اور اپنے آپ کو وینٹی لیٹر پر رکھ کر مصنوعی سانس کے ذریعے زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ اس نظر آتی موت کی وجہ سے ہی تو اب مسلم لیگ ن لیول پلیئنگ فیلڈ کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ کہیں levelers کے ذریعے لیول کرواتے کرواتے ہم فیلڈ ہی نہ کھو بیٹھیں۔
اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل
سیاست دانوں کے قلیل مدتی ذاتی مفادات اور سیاسی قیادت میں بالغ نظری کا فقدان تقاضا کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یکسر غیر سیاسی نہیں ہونا چاہئیے۔ ملک اور عوام کے بہترین مفاد میں اسے نیوٹرل رہتے ہوئے Mediator یا Arbitrator کا کردار ادا کرنا چاہئیے تا کہ ملک میں غیر یقینی صورت حال ختم ہو سکے اور بربادی کے بجائے ترقی کے آثار پیدا ہو سکیں۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ کو کسی بھی سیاسی یتیم کو گود بچہ نہیں بنانا چاہئیے۔
ملک کی برباد معاشی حالت
اس پر زیادہ تبصرے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان کے 98 فیصد لوگ اس معاشی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ آج کل ہر نتھو خیرا ایک ہی نعرہ لگاتا نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ سیاسی استحکام کے لیے کیا ضروری ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں سیاسی استحکام کے لیے بے شمار اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان اصلاحات کے بغیر شاید سیاسی استحکام اس ملک کو کبھی بھی نصیب نہ ہو سکے۔
ٹیکس، پولیس، زراعت، عدلیہ، سیاست، صنعت، بیوروکریسی اور پارلیمان کے شعبوں میں اصلاحات لانے کی شدید ضرورت ہے۔ میں تھوڑا سا صنعتی اصلاحات پر روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ اس وقت ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ انڈسٹریل پالیسی تبدیل ہو جاتی ہے جس سے ہماری ایکسپورٹ کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر ہے۔ اگر انہیں پالیسی کو ریفارمز کے ذریعے آئینی تحفظ حاصل ہوتا تو شاید ہم بہت آگے جا چکے ہوتے لیکن یہ سب اصلاحات تب ہی ممکن ہیں اگر کسی بھی حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت ہو۔
آگے بڑھنے کے لیے میری مقتدر حلقوں سے گذارش ہے کہ ملک میں فوری طور پر آئین کے مطابق شفاف الیکشن کروائے جائیں تاکہ ملک میں کوئی مستحکم حکومت اپنے 5 سال پورے کر سکے ورنہ چوں چوں کا مربہ والی پی ڈی ایم ٹائپ حکومت کبھی بھی ملک کو اس دلدل سے نہیں نکال سکے گی۔ کسی پارٹی یا لیڈر کو روکنے یا چھوڑنے کی بجائے عوام پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ مقتدر حلقوں کا فوری اور منصفانہ الیکشن کرانے کا فیصلہ ان کروڑوں سہمی ہوئی اور بے زبان اکثریت کو ایک نئی زندگی دینے کا سبب بنے گا اور اسی میں ملک کی بقا ہے۔