بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان کو ہیرو کیوں سمجھتے ہیں؟ (I)

بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان کو ہیرو کیوں سمجھتے ہیں؟ (I)
تاریخ میں برپا ہونے والے غیر معمولی واقعات پر قلم کار مختلف زاویوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بار بار ان واقعات و تبدیلیوں و تغیرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ پر آج تک لکھا جا رہا ہے۔ ناول لکھے جاتے ہیں، فلمیں بنتی ہیں۔ انقلاب روس و فرانس آج تک پردہ سکرین پر زندہ ہیں۔ روس اور امریکہ کی 1950 کی دہائی میں شروع ہونے والی سرد جنگ کی بازگشت آج بھی سماعت کو گرماتی ہے۔ نائن الیون پر کتنے ہی ٹی وی پروگرام تیار ہوئے، کتابیں و مضامين لکھے گئے، دستاویزی فلمیں بنیں وغیرہ وغیرہ۔ زندہ معاشرے غیر معمولی واقعات، تبدیلیوں اور تغیرات کا معاشرتی، سیاسی، اخلاقی، معاشی اور نفسیاتی پہلوؤں سے پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ اس قسم کے پوسٹ مارٹم کرنے میں ہمارا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ یا تو ہم غیر معمولی واقعات کا پوسٹ مارٹم کرنے کا تکلف ہی نہیں کرتے اور مُردے کو جلد از جلد دفن کر دیتے ہیں۔ اور اگر ہم کبھی دکھاوے کے لیے پوسٹ مارٹم کرتے بھی ہیں تو وہ اتنا مسخ شدہ اور دھندلا ہوتا ہے کہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ اگر کبھی کوئی شیر دل غیر جانبدار اور سچ پر مبنی پوسٹ مارٹم کرنے کی ہمت دکھاتا ہے تو رپورٹیں اور فائلیں دبا کر وقت گزرنے اور ایشو ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔

دوسری مشکل یہ ہے کہ ہم حد اعتدال سے ہٹے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم اکثر دو انتہاؤں پر کھڑے پائے جاتے ہیں۔ کبھی تو ہم پاکستان میں برپا ہونے والی ہر شے کو امریکی و اسرائيلی اور بھارتی سازشوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ کبھی ہم تمام ذاتی، قومی اور روحانی بیماریوں کا ذمہ دار سیاست دانوں کو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی ہم اپنے سارے مسائل کا حل مارشل لاء میں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں اور باقی عوامل کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ ہم کسی لیڈر سے محبت کرتے ہیں تو بھی اعتدال کی راہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اگر نفرت کرتے ہیں تب بھی انتہا پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ جو قوم اعتدال کی راہ سے دور بھٹک رہی ہو تو ایسی قوم کو بے وقوف بنانا آسان ہوتا ہے کیونکہ جب ہم ایک انتہا پر کھڑے ہوتے ہیں تو ہم کبھی بھی معاملے کی مکمل تصویر نہیں دیکھ پاتے۔ غرض پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اگر آنکھ کو ہی سارا جسم سمجھ لیا جائے تو پھر مکمل رپورٹ کس طرح مرتب ہو سکتی ہے؟

سماجی و نفسیاتی پوسٹ مارٹم کرنے میں یہ دقت درپیش ہوتی ہے کہ ایسا تجزیہ جسمانی پوسٹ مارٹم کی طرح یقینی اور مکمل نہیں ہوا کرتا۔ اس میں ہر دم کچھ نیا شامل کرنے کی گنجائش رہتی ہے اور اس میں پسند، ناپسند، تعصب اور جانبداری بھی آڑے آتی ہے۔ اس مشکل سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تجزیہ کار تجزیے میں زیادہ سے زیادہ سوال اٹھائے۔ تجزیے میں سوالات کا انبار لگانے سے مضمون میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اپنے تجزیے میں جب تجزیہ کار جوابات دینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے جوابات تسلی بخش، درست اور مکمل بھی ہوں۔ اس لیے پھیلے ہوئے تجزیے میں سوالات کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہئیے۔ سوال بحث کو چھیڑنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے سوال کو جواب پر فوقیت حاصل ہے۔

بہرحال بات ہورہی تھی غیر معمولی واقعات کی۔ عمران خان کا برسر اقتدار ہونا اور پھر بے اقتدار ہونا، خان کی مقبولیت اور اب پی ٹی آئی کے ٹکڑے ہو جانا؛ یہ سب غیر معمولی واقعات ہیں۔ خان کی مقبولیت و عقیدت میں سمند پار پاکستانیوں کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ ماضی میں شاید ہی سمندر پار پاکستانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں کسی پاکستانی لیڈر کے لیے اس قدر وابستگی و محبت ظاہر کی ہو۔ آپ (سمندر پار پاکستانی) کی خان کے لیے محبت قابل قدر ہے اور اس عقیدت کے پس پشت نیک نیت ہی کارفرما ہو گی۔ خاکسار پیش خدمت تحریر میں آپ سے مخاطب ہونے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان غیر معمولی واقعات کا پوسٹ مارٹم کرنے کی خاطر آپ کے سامنے چند گذارشات رکھنے کی جسارت کا خواہاں ہے۔

درج ذیل نکات عمران خان کی حقیقی آزادی کے فلسفے کا پوسٹ مارٹم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:

آپ کا پاکستان کے مستقبل کے لیے فکر مند ہونا، نیک تمنائیں اور خواہشیں رکھنا اور جدوجہد کرنا قابل قدر و قابل ستائش ہے۔ عرض یہ ہے کہ کسی شے کی آرزو و طمع و تڑپ رکھنا ایک الگ بات ہے اور اس خواہش و ضرورت و حاجت کی تکمیل کے لیے کوئی طریقہ و راستہ اپنانا دوسرا معاملہ ہے۔ آپ کسی نیک خواہش و جائز ضرورت کو کسی غلط فعل کے لیے بطور توجیہ پیش نہیں کر سکتے۔ مثلاً کسی غریب کی مدد کرنے کا ارادہ رکھنا ایک نیک ارادہ ہے لیکن اس نیک مقصد کے لیے چوری کرنا کیا جائز ہے؟ اسی طرح کسی شے کی ضرورت محسوس کرنا اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی راستے پر چلنا دو مختلف امور ہیں۔ ایک بیمار شخص کو دوا کی جائز ضرورت محسوس ہو اور وہ علاج و دوا کے لیے درزی کے پاس چلا جائے اور لوگ اسے لاکھ سمجھائیں کہ بھائی یہ ڈاکٹر یا حکیم نہیں بلکہ درزی ہے لیکن بیمار شخص اسی بات کی گردان کرتا چلا جائے کہ میں بیمار ہوں، کیا میں اپنا علاج نہ کرواؤں، کیا میں دوا نہ لوں؟

آپ اوورسیز پاکستانی بھی اپنی جائز و نیک تمنا کے حصول کے لیے درزی کی دکان کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کی امیدوں کا دودھ خالص ہے مگر افسوس آپ نے خالص دودھ جس برتن میں ڈالا ہوا ہے وہ چھید چھید ہے۔ اب تجزیے کا یہ نکتہ میدان جنگ ہے کیونکہ آپ لوگ یہ مانتے ہیں کہ جس برتن کو تم چھید چھید اور بیکار سمجھتے ہو دراصل وہ برتن انتہائی نفیس و پاک و مقدس ہے اور یہی نایاب برتن ہماری امیدوں اور تمناؤں کو تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ اور کہو گے اے نادانو! جسے تم ایک معمولی درزی سمجھ رہے ہو حقیقت میں وہ دانا و حکیم و شفا مند ہے اور یہی وہ نظام شکن ہستی ہے جو ظالمانہ نظام کو نیست و نابود کرنے کی خاطر کھڑی ہوئی ہے۔

آپ کے نزدیک خان ظالمانہ و غیر منصفانہ نظام کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے۔ لیکن آپ خان صاحب سے یہ تو پوچھیں کہ ظالمانہ نظام سے کیا مراد ہے۔ اگر اس سے مراد صرف نواز اینڈ زرداری کے خاندان وغیرہ ہیں تو جناب مشرف کے طویل آمرانہ دور میں نواز اینڈ زرداری فیملیز کا تو حکمرانی میں کوئی کردار نہیں تھا تو پھر کیا مشرف نے ظالمانہ نظام کی عدم موجودگی میں منصفانہ نظام قائم کر دیا تھا؟ نواز اینڈ زرداری کمپنی بذات خود ظالمانہ نظام نہیں ہیں، یہ سب ظالمانہ نظام کی بائی پروڈکٹس ہیں۔ یہ سب غیر منصفانہ نظام سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ ظالمانہ نظام سے فائدہ اٹھانے والوں کو ضرور سزا ملنی چاہئیے لیکن صرف سزائیں دینے سے نظام تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ اگر گندم کی بوری کسی ایسے کمرے میں دھری ہے جو بھوکے چوہوں کی گزرگاہ ہے تو محض چوہے مارنے سے آپ کی گندم محفوظ نہیں رہ سکتی۔ آپ چوہے مارتے جائیں گے اور تازہ دم چوہے کھلی گزرگاہوں سے آ کر گندم اچکتے رہیں گے۔ اس لُکا چھپی کے کھیل میں ایک دن آپ کی انرجی اور گندم ختم ہو جائے گی۔ آپ نظام سے فائدہ اٹھانے والوں کو ہٹائیں گے تو ان کی جگہ اور آ جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جب تک کہ کھلی گزرگاہیں بند نہیں کی جاتیں۔

اگر کہو کہ ظالمانہ نظام سے مراد نواز و زرداری خاندان اور ان کی کرپشن ہیں تو خان کے دور حکومت میں اس ظالمانہ نظام کا وجود ہی نہیں تھا۔ اب جب تبدیلی سرکار کے دور میں ظالمانہ نظام کا وجود ہی نہیں تھا تو پھر جو پنجاب میں گوگی، بزدار اور محکمہ عملیات کا گٹھ جوڑ بنا اور اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں جو کرپشن کی ہولی کھیلی گئی تو یہ سب کس نظام کا حصہ تھا؟ اور جب پاکستان کے نپولین کے سامنے محکمہ عملیات اور بزداری بدعنوانیوں کی فائل رکھی گئی تو بجائے اس کے کہ کرپشن کے ان ثبوتوں پر قانونی کارروائی کا حکم دیا جاتا، نپولین الٹا اپنے من پسند کرپٹ لوگوں کی کرپشن کا سہولت کار بن گیا۔ اب بتاؤ! اُس وقت ظالمانہ نظام (نواز و زرداری وغیرہ) کا سایہ ہی نہیں تھا تو پھر یہ عجب کرپشن کی غضب کہانیاں کس نظام میں لکھی جا رہی تھیں؟

آپ یورپ کی سڑکوں پر نعرے مارتے پھرتے ہیں کہ ہم سوال پوچھیں گے کیونکہ سوال پوچھنا ہمیں عمران خان نے سکھایا ہے۔ کیا آپ اپنے پیر و مرشد سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھنے کی جسارت کریں گے؟

1۔ خان صاحب! آپ ظالمانہ نظام کے خلاف کھڑے ہیں۔ ظالمانہ نظام سے آپ کی مراد کیا ہے؟

2۔ اگر ظالمانہ نظام سے مراد کرپشن ہے تو جب کرپشن کے تانے بانے آپ کے گھر کی طرف جا رہے تھے تو آپ نے غیرجانبدار بن کر مثال قائم کیوں نہیں کی؟

3۔ آپ نواز و زرداری کو کٹہرے میں لانے کے حوالے سے تو اپنی بے بسی کا ذکر کرتے ہیں لیکن جن ہستیوں کو آپ نے اہم ترین عہدے دیے (بزدار اور محمود خان وغیرہ) جب ان کی کرپشن کے قصے عام ہونے لگے تو کیا آپ نے ان کو عہدوں سے ہٹانے کی کوشش کی؟

4۔ خان صاحب! کیا آپ کا فلسفہ کرپشن یہ ہے کہ سیاسی حریف اگر کرپشن کرے تو وہ ملک پر ظلم ہے لیکن اگر آپ کی بیگم صاحبہ کی سہیلی دونوں ہاتھوں سے پنجاب میں کالا دھن اکٹھا کر رہی ہو تو وہ کرپٹ معاشرے کا عمومی مزاج ہے؟

مذکورہ بالا سوالات بطور نمونہ پیش کیے گئے ہیں ورنہ سینکڑوں ایسے سوالات ہیں جو آپ خان سے پوچھ سکتے ہیں۔ اگر کہو کہ عمران خان ایک بہت عظیم مقصد لے کر کھڑا ہوا ہے اور یہ سب سوالات بے معنی، لغو اور بچگانہ ہیں تو پھر دوسروں کی کرپشن کو آپ لوگ زیر بحث کیوں لاتے ہیں؟ اور جہاں تک بات رہی بڑے مقصد کی تو جو بندہ اپنے گھر کی صفائی نہیں کر سکتا وہ پورے ملک کی صفائی کرنے کی اہلیت کس طور رکھ سکتا ہے؟

آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اس قدر واضح تضادات اور کھلے کھلے دھوکے کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کا خان کے ساتھ رومانس ختم نہیں ہو رہا؟ اس کی وجہ ہیرو پرستی ہے۔ آپ خان کو سیاسی لیڈر نہیں سمجھتے بلکہ اسے ہیرو مانتے ہیں۔ سیاسی لیڈر غلطی بھی کر سکتا ہے، دھوکا بھی دے سکتا ہے لیکن ہیرو ماورائے غلطی و نادانی و شیطانی و دغا بازی ہوتا ہے۔ ہیرو کے مقدر میں شکست نہیں ہوتی۔ ہیرو کی ہر بات زریں قول، ہر فعل پُر حکمت اور ہر منصوبہ کامیاب ہوتا ہے۔ چونکہ ہیرو حکمت و دانائی کا مجسم پیکر ہوتا ہے اس لیے ہیرو کو کسی دانا کے مشورے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہیرو کے دو بنیادی کام ہوتے ہیں؛ ایک حسیناؤں کے ساتھ دل نشیں وادیوں میں رومانس کرنا اور دوسرا برے خبیث لوگوں کا صفایا کرنا۔

آپ لوگ خان کے حوالے سے شدید قسم کی ہیرو پرستی کا شکار ہیں۔ اسی سبب آپ خان کی انانیت، تکبر، حماقتوں اور جھوٹ کو زیر تنقید نہیں لاتے۔ آپ کے لیے صرف یہی بات باعث تسلی و سکون ہے کہ خان نواز و زرداری وغیرہ کو چور چور کہتا ہے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی بے باک بولتا ہے۔ آپ کی آنکھوں پر چڑھی ہیروپرستی کی عینک اس سے آگے آپ کو کچھ دکھاتی ہی نہیں۔ پاکستان کے لیے آپ کو باعمل لیڈر نہیں بلکہ ایک گراموفون پسند ہے جس پر سارا دن چور چور کا ریکارڈ بجتا رہے اور سامعین جھوم برابر جھوم برابر کرتے رہیں۔ یاد رکھیں! غیر حقیقی ہیرو کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہر دل عزیز ہیرو کو پردہ سکرین سے نکال کر حقیقی دنیا میں اتارا جاتا ہے تو پردہ سکرین پر جگمگاتا ہوا ہیرو دیکھتے ہی دیکھتے زیرو بن جاتا ہے لیکن ہیرو کے پرستار اپنے ہیرو کی شکست کو تسلیم نہیں کر پاتے۔ وہ اسی بھرم کے ساتھ اپنا من بہلاتے رہتے ہیں کہ دیکھنا ہمارا ہیرو ایک بار پھر میدان میں اتر کر مخالفین کا خاتمہ کر دے گا۔

یہ سچ ہے کہ خان دو میدانوں کا اصل ہیرو تھا۔ خان کرکٹ کے میدان کا اصلی ہیرو تھا۔ عمران خان شوکت خانم ہسپتال جیسے مشکل ترین فلاحی پروجیکٹ کو مکمل کرنے والا اصلی ہیرو تھا۔ دیوتاؤں نے اس پیڑ (ہیرو) کو اس کی اصل زمین سے اکھیڑ کر کسی اور کے آنگن میں پیوست کرنا چاہا مگر پیڑ سیدھا گھر پر ہی دھڑام سے گر پڑا۔ اس ناکامی میں خان کے ساتھ ساتھ خان کی جینیاتی انجینئرنگ کرنے کی کوشش کرنے والے بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ہائے افسوس! جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے غیر فطری ہیرو کو تخلیق کرنے کا نتیجہ ڈیزاسٹر کی صورت میں نکلا۔ عمران خان پروجیکٹ کا آغاز کر کے خان کے قد کاٹھ میں مصنوعی طریقوں سے اضافہ کیا گیا۔ کبھی دھرنے ڈیزائن کیے گئے تو کبھی بڑے بڑے جلسے منقعد کیے گئے۔ جب آئرن مین تیار ہو گیا تو اسے بڑے طمطراق اور سج دھج کے ساتھ تخت نشیں کیا گیا۔ ملاوٹ کے اس کھیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ نقلی وجود اصلی وجود کو کھا گیا اور نقلی بھی باقی نہ رہا۔ آئرن مین کا فولادی لباس تیز تپش میں پگھل گیا اور لباس کے اندر موجود انسان بھی گم ہو گیا۔

(جاری ہے)