افطار پارٹی یا ابلیس کی مجلس شوریٰ

افطار پارٹی یا ابلیس کی مجلس شوریٰ
تحریر: (مرزا یاسر) 19 مئی 2019 کا دن سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم رہا، پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے افطار پارٹی کے میز پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس تماشے کو دیکھنے کے لیے کچھ سیاسی بونے بھی پورے سج دھج کے آئے جو آجکل "نہ تین میں نہ تیرہ" میں شامل ہیں۔

اس بڑی بیٹھک کی تصویریں نظر سے گزریں تو فوراَ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کی نظم "ابلیس کی مجلس شوریٰ" یاد آگئی۔ اقبال نے یہ نظم اپنی وفات سے دو سال پہلے لکھی اور کمال لکھی۔ نظم میں شیطان اور اس کے مشیران کے درمیان ہونے والے مکالمے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس مکالمے کا آغاز ابلیس اپنے مریمکارہائے نمایاں کے ذکر سے کرتا ہے، اس کے بعد ابلیسی نظام کو لاحق خطرات پر بات کی جاتی ہے اور آخر میں ابلیسی نظام کی بقاء کے لیے حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔

بس اسی مماثلت کی وجہ سے میں نے اس افطار پارٹی کو " ابلیس کی مجلس شوریٰ" کہنا زیادہ مناسب سمجھا ہے۔ اس افطار پارٹی کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس بات پر غور و فکر کیا جاسکے کہ ایسی کیا تدبیر اختیار کریں، جس سے اپنے ذاتی مفادات کو عوامی امنگوں کا لباس پہنا کر لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسایا جائے۔

اس سیاسی افطار پارٹی میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے بابے بھی موجود تھے لیکن کیمرے کی آنکھ صرف جوان چہروں پر مرکوز رہی، کیمرے کی اس بد تمیزی کو آپ "ری لانچنگ" بھی کہہ سکتے ہیں۔ ری لانچنگ ایک کاروباری اصطلاح ہے، جب کسی کمپنی کی کوئی پراڈکٹ مارکیٹ میں بری طرح ناکام ہو جاتی ہے تو اس نئی پیکنگ اور نئی حکمت عملی کیساتھ دوبارہ مارکیٹ میں بھیجا جاتا ہے تاکہ مارکیٹ میں جگہ بنائی جاسکے۔ خیر یہ تو میری ذاتی رائے ہے لیکن اگر اس افطار پارٹی کو سیاسی رُخ سے دیکھا جائے تو یہ اکٹھ کپتان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

احتساب سے بچنے کے لیے افطار پارٹی کے میز پر جو بساط بچھائی گئی ہے اس کی پہلی چال سڑکوں پر ہنگامہ ہے۔ اگر حزب اختلاف کی جماعتوں کا یہ اتحاد قائم رہا اور سڑکوں پر آیا تو افراتفری اور بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ بظاہر تو ایسا ہونا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتیں۔ اس وقت جو سب سے بہترین آپشن ان دونوں جماعتوں کے پاس موجود ہے وہ پارلیمنٹ ہے۔ سڑکوں پر آنے سے بھی پہلے اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد پارلیمنٹ کو میدان جنگ بنا سکتا اور بجٹ کے معاملے میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اصلاحات اور قانون سازی کا عمل جو پہلے ہی سست روی کا شکار ہے وہ مزید سست پڑ جائے گا جس سے کپتان کو وہ وعدے پورے کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی جن کا دارومدار قانونی اصلاحات پر ہے۔

خراب معاشی حالات کی وجہ سے کپتان صاحب پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں اور اپوزیشن کی جارحانہ سیاست سے ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ صرف اپوزیشن ہی کپتان سے تنگ نہیں عوام نے بھی 150 کے ڈالر اور 110 کے پٹرول پر گھبرانا شروع کر دیا ہے۔ ابھی گیس بم پھٹنا اور بجلی کا کڑکنا بھی باقی ہے۔

یہ تمام عوامل مل کر اپوزیشن جماعتوں کے لیے ایک کھلا میدان تیار کر رہے ہیں جس میں وہ حکومت کے ساتھ مہنگائی پر ٹی ٹوئنٹی کھیل سکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو عوام تماشا دیکھنے ضرور آئے گی۔ مختصر یہ کہ اس وقت حکومت نے جمہوریت کو بچانا ہے، قومی اسمبلی کو چلانا ہے اور احتساب بھی کرنا ہے تو جناب۔۔! یہ تینوں کام بیک وقت نہیں ہوسکیں گے۔ کپتان کو کسی ایک سے دستبردار ہونا ہی پڑے گا۔ اس سے پہلے کے حزب اختلاف والے کوئی ہنگامہ کھڑا کریں کپتان کو سخت اور مشکل فیصلہ کرنا ہو گا۔ میرے خیال میں اب سخت فیصلے کرنا ویسے بھی کپتان کے لیے مشکل نہیں رہا کیونکہ کپتان پچھلے 9 ماہ میں ایسے بہت سے فیصلے کر چکا ہے۔ جیسا کہ کشکول لے کر ملک ملک گھومنا، خودکشی کیے بغیر آئی ایم ایف سے امداد لینا، سانحہ ساہیوال، مسنگ پرسن اور وغیرہ وغیرہ۔۔ اس صورتحال میں کپتان کے بچاؤ کا راستہ اور اپوزیشن کی خواہش ایک ہی ہے۔ ابھی میری بات کو غیر ضروری، فضول اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ میرا تجربہ زیادہ نہیں اور میرے پاس کوئی بڑی پوزیشن بھی نہیں لیکن یہ بات تو سو فیصد یقینی ہے کہ ملک کے جو حالات ابھی ہیں اگر یہی رہے اور اپوزیشن والے سڑکوں پر نکلے تو حکومت کو جمہوریت، پارلیمنٹ اور احتساب میں سے کسی ایک پر دستبردار ہونا ہی پڑے گا۔

 

#نوائےراز

#مرزایاسر

لکھاری نے جامعہ گجرات سے میڈیا سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔