کل پرسوں اپنے نوجوان دوست علی وارثی (میرے بچپن اور جوانی کے دوست باپ دادا کے ہم عمر تھے۔ اب بڑھاپے میں دوست بچے، نوجوان اور جوان ہیں۔ بچپن میں بوڑھوں سے اور بڑھاپے میں بچوں سے سیکھ رہا ہے یہ بوڑھا انسان جس نے زندگی کو فقط ضائع کیا!) سے بات ہو رہی تھی۔ کچھ میں نے کہا اپنے پھکڑ پن سے مجبور ہو کر۔ اس نے سنجیدگی سے لیا۔ میں نے گلہ کیا کہ تم میری حس مزاح کی ہرگز تعریف نہیں کرتے۔ جواب میں علی نے عامر لیاقت کی تصویر بھیج دی جس میں وہ مسکراتے ہوئے 'واہ' کہہ رہا تھا۔ تصویر کے ساتھ علی نے کچھ اضافہ یوں کیا:
'عامر بھائی اسی طرح مسکراتے مسکراتے دنیا سے رخصت ہو گئے!' یہ پڑھ کر میں گہری سوچ میں پڑگیا۔ واقعی بات تو سچ ہے۔ عامر بھائی ہنستے ہنستے اور لوگوں کو ہنساتے ہنساتے کتنی خاموشی سے، کیسے چپکے سے چلے گئے۔ میں نے علی سے وعدہ کیا کہ کچھ عامر بھائی کے بارے میں لکھوں گا باوجود اس کے کہ میں کبھی بھی ان کا پرستار نہیں رہا۔ البتہ ان کے حوالے سے جگتیں لگانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔
مجھے علم ہے اس مضمون کے چھپنے کے بعد وہ دوست احباب جو میرے خیالات سے اچھی طرح واقف ہیں، مجھے تنقید کا نشانہ بنائے بنا نہ رہ سکیں گے کہ کہاں میں عامر بھائی کی زندگی میں ان کے خلاف لکھتا رہا اور اب ان کی تعریف و توصیف میں قلم اٹھا رہا ہوں۔ پر مجھے اپنے دوستوں کی پروا نہیں۔ دراصل ان کے ہوتے کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں!
عامر لیاقت کو جتنا مرضی تنقید کا نشانہ بنا لیجئے مگر اس بات سے بشمول میرے کوئی انکار نہیں کر سکے گا کہ وہ بہت اعلیٰ پایے کا اداکار تھا۔ شاید اسے خود بھی اپنی اس خوبی کا علم نہ ہو۔ ایک زمانہ تھا پی ٹی وی پر 'نیلام گھر' کا راج تھا۔ اس کے میزبان مرحوم طارق عزیز ہوا کرتے تھے۔ بعد میں 'نیلام گھر' کا نام 'طارق عزیز شو' رکھ دیا گیا۔ لیکن 'عامر لیاقت شو' کے آگے 'طارق عزیز شو' تو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہی پرانا گھسا پٹا سکرپٹ!
عامر لیاقت نے تو 'شو' کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔ کون سا کام ہو گا جو اپنے شو میں انہوں نے خود کر کے نہ دکھایا ہو۔ انہوں نے کھانا پکایا، دوڑ لگائی، ناگن ڈانس تک کیا۔ بچوں کے آگے بچہ اور بڑوں کے آگے بڑا بن کر دکھایا۔ یہ تھا ان کی شخصیت کا ایک پہلو۔
انٹرٹینر کے علاوہ عامر بھائی مذہبی سکالر بھی تھے۔ عالم آن لائن کے نام سے جو ٹی وی پروگرام انہوں نے کیا اس نے بہت شہرت پائی۔ ہم اس دور میں ان کا مذاق کچھ ایسے اڑایا کرتے تھے: 'جاہل آن لائن'، 'عالم آف لائن'! لیکن اب اس قسم کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ انسان دنیا ہی چھوڑ گیا۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجنا وی مر جانا۔
ان کے دشمن بھی ان کی مقبولیت کو مانے بغیر نہیں رہ سکتے۔ قومی اسمبلی کا الیکشن جب بھی لڑا عامر بھائی کامیاب ہوئے۔ ایک ہی انسان میں بیک وقت اتنی خوبیوں کا موجود ہونا عام بات نہیں۔ عامر بھائی زمانے کے ساتھ چلے۔ جو ٹرینڈ تھا اس سے دو ہاتھ آگے ان کی سوچ رہی۔ بہت سارے شو ان کی نقل میں معرض وجود میں آئے مگر کامیاب نہ ہوئے۔ وہ اپنی ذات میں واحد میزبان تھا۔ ان کے آگے 'ضیا محی الدین شو' بھی کچھ نہ تھا۔ انہوں نے عوام کو وہی پھکڑ پن وافر مقدار میں مہیا کیا جو وہ چاہتے تھے۔ (یاد رہے کہ عوام مذکر ہے مؤنث نہیں)۔ لاکھوں لوگ ان کے شو کے دعوت نامے کے لئے مرتے تھے۔ آپ جتنا مرضی نا پسند کریں، اختلاف کریں مگر یہ امر ماننے سے انکاری نہیں ہو سکتے کہ عامر لیاقت اس صدی کا سب سے بڑا انٹرٹینر تھا، ایسا انٹرٹینر جس کے آگے عمر شریف تک کچھ بھی نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہر ٹی وی چینل ان کے آگے پیچھے پھرتا رہا۔ پھر عامر بھائی کی توانائی کو داد دیں۔ رمضان نشریات افطار سے سحری تک بنا تھکے کر لیتے تھے۔ عامر بھائی نے ایک شو میں خلیل الرحمٰن قمر کو، جو اپنے آپ کو بہت بڑا دانشور اور لکھاری سمجھتا ہے (اصل میں ہے کچھ بھی نہیں) آڑے ہاتھوں لیا۔ اسے کہا کہ تیرا اصل مقام پاگل خانہ ہے۔ خلیل قمر وہ بدتمیز انسان ہے جس کی زبان سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ لیکن کیا مجال عامر بھائی کے آگے چوں بھی کرتا۔ اور کیسے کرتا؟ بات جو سچ تھی۔
شاید عامر بھائی نے زندگی میں یہی ایک اچھی اور حق بات کہی ہو۔ اللہ تعالی ان کی معغفرت کرے۔ آمین۔
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔