پاکستان میں آج کل آڈیو لیکس کا ایک خطرناک اور غیر اخلاقی سلسلہ چل پڑا ہے۔ پہلے ہی سیاست بدمعاشی، اجارہ داری اور فحش گوئی کی زد میں ہے مگر ان آڈیو لیکس نے ماحول کو مزید غیر اخلاقی اور غیر مہذب بنا دیا ہے۔ سیاسی افراد کی نجی زندگی کے بارے میں خبریں اور تصاویر پہلے سے پاکستانی میڈیا میں گردش کرتی آ رہی ہیں۔ ایجنسیز سیاستدانوں کو کنٹرول اور بلیک میل کرنے کے لئے ان اوچھے ہتھکنڈوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔
افسوس کہ سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ایسے فحش عوامل کا سہارا لیتے ہیں۔ جب کسی سیاستدان کے بارے میں ایسا کوئی غیر اخلاقی مواد لیک ہوتا ہے تو سیاستدان اس غیر اخلاقی حرکت کو اجتماعی طور پر روکنے کی بجائے اس میں اپنا اپنا سیاسی فائدہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف جب اسٹیبلشمنٹ کے خاص آدمی تھے تو وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث رہتے تھے۔ محترمہ کی جہاز سے قابل اعتراض تصاویر پھینکنے سے لے کر پارلیمنٹ میں شیخ رشید جیسوں کے ذریعے ان پر فحش جملے بازیوں تک نواز شریف اس گھناؤنے کھیل کے بانیوں میں سے ہیں۔ اس وقت محترمہ شہید نے نواز شریف کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس کام سے باز رہو اور ڈرو اس وقت سے جب تمہارے گھر والوں کے ساتھ ایسا سلوک ہو گا۔
پاکستان کے سیاستدان اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیز کے سیاسی کردار کے بارے میں مسلسل اور بے تحاشہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ ادارے ان کو بہت اچھے لگتے ہیں جب وہ ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو رہے ہوں اور جیسے ہی ان کی توپوں کا رخ ان کی طرف مڑتا ہے تو ان کو ان اداروں کی آئینی حدود کا خیال آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان اداروں کا کوئی بھی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا، ان کے قلیل مدتی مفادات ہوتے ہیں جس کو پورا کرنے کے لئے کوئی بھی ان کی زد میں آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں سیاستدانوں کی نجی ویڈیوز اور آڈیوز کا ایک باقاعدہ اور منظم سلسلہ شروع ہوا۔ جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما زبیر عمر کی فحش ویڈیو لیک کی گئی تو اس وقت تحریک انصاف کے رہنماؤں سے لے کر ان کے حمایتیوں تک سب نے خوب ٹھٹہ اڑایا۔ تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے زبیر عمر کو شرمندہ کرنے کے لئے بے شرمی کی ہر حد عبور کر دی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مریم نواز کی آڈیو لیک کی پیشگی اطلاع دیا کرتے تھے کہ اس کی آیڈیو آ رہی ہے۔ عمران خان مریم نواز کی آیڈیو لیک پر کریڈٹ لیتے تھے اور اس پر ان کا عوامی جلسوں میں تمسخر اڑاتے تھے۔ اس وقت سب کچھ ون پیج پر تھا اور عمران خان سمیت پوری تحریک انصاف کو یہ زعم تھا کہ اداروں کی حمایت اور ان کا دست شفقت ان پر ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔ مگر مکافات عمل کا کیا ہو گا؟
حالیہ دنوں میں ادارے بھی وہی ہیں، طریقہ واردات بھی وہی ہے مگر اس کا نشانہ بننے والے اس بار تحریک انصاف کے چیئرمین اور پاکستان میں سستی تبدیلی کے سرخیل عمران خان ہیں۔ آج کل ان کی آڈیو لیکس کا دور چل رہا ہے۔ عمران خان اس لیول پر کس طرح پہنچے ہیں کہ ان کو ریاست مدینہ کے داعی بنانے والے آج ان کو ایک بازاری اور فحش آدمی بنانے پر تل گئے ہیں؟ بقول ناصر کاظمی:
پتھروں آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو کبھی اپنا خدا رکھا ہے
انسان کو کبھی بھی دوسروں کے لئے حد سے زیادہ اونچے معیارات سیٹ نہیں کرنے چاہئیں۔ انسان جب دوسروں کے لئے دیانتداری اور سچائی کے بڑے معیارات بناتا ہے تو بالآخر وہ معیارات لوٹ کر اس کا محاسبہ بھی کرتے ہیں۔ خاص کر جب آپ سیاسی لیڈر ہوں تو آپ کو ہرگز مذہبی نظریات کو سیاست کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ عمران خان نے 'امر بالمعروف' اور 'جہاد' کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان کے سیاسی مخالفین اور ان کے سپورٹرز میں ان کی شخصیت کا ایک معیار بن گیا تھا۔ وہ ایک انتہا پسندانہ عمل تھا۔ اب جو ان کی لیکس کے بعد ان کا کردار سامنے آ رہا ہے وہ بھی ایک انتہا پسند رویہ ہے۔ اگر وہ ایک سیاسی لیڈر رہتے تو آج خفت کا کم سامنا کرنا پڑتا۔
عمران خان سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی میں ذاتیات کو شامل کر لیا۔ جنرل باجوہ پر مسلسل تنقید اور قابل اعتراض گفتگو کر کے مخالف حلقوں کو اپنے خلاف انتقامی کارروائیوں پر مجبور کیا۔ وہ جس پائے کے سیاسی لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں ان کو چاہیے تھا کہ وہ نظریات اور قومی ایشوز کی سیاست کرتے نا کہ ذاتی حملوں پر اتر آتے۔ جب آپ کسی کو اس حد تک تذلیل کا نشانہ بنائیں گے تو ان کا جوابی وار بھی آئے گا۔ عمران خان کو اپنے خلاف آڈیو لیکس اور مزید تذلیل کا سلسلہ روکنے کے لئے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔