کراچی کے ووٹرز جنرل نشستوں پر خواتین کو کیوں منتخب نہیں کرتے؟

کراچی سے جنرل سیٹ پر کسی خاتون امیدوار کا منتخب ہو کر نہ آنا ایک المیہ ہے، افسوسناک بات ہے۔ جس شہر کو آپ پڑھے لکھے لوگوں کا شہر کہتے ہیں، باشعور اور علم دوست لوگوں کا شہر کہتے ہیں، الیکشن میں خواتین امیدواروں کے منتخب ہونے کے عمل میں وہ علم کہاں بکھر جاتا ہے، یہ اہم سوال ہے۔

کراچی کے ووٹرز جنرل نشستوں پر خواتین کو کیوں منتخب نہیں کرتے؟

صنفی تفریق کا موضوع ہمارے ہاں کافی عرصے سے زیر بحث رہا ہے جس میں خواتین کا گلہ ہے کہ انہیں مردوں کے برابر حقوق فراہم کیے جائیں۔ سماجی پرورش میں خواتین کا کردار ہمیشہ سے قابل تحسین رہا ہے۔ گھر سے لے کر روزگار تک ہر معاملے میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر اپنی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت دیا ہے۔ سیاست میں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر آئیں تو وہ پاکستان اور اسلامی ممالک میں پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ یہی وہ تسلسل ہے جس نے خواتین کو سیاست میں متحرک رکھا ہے۔

آج پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں میں خواتین کی نمائندگی کم سہی مگر ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو بین الاقوامی شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تجارت، تعلیم اور روزگار جیسے مواقع جو اس شہر میں ہیں وہ پاکستان کے کسی دوسرے شہر میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مکین شعور، تعلیم، قابلیت اور صلاحیتوں سے کسی سے کم نہیں۔ اس میں خواتین اور مرد دونوں شامل ہیں۔

کراچی شہر سے خواتین سیاست کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہیں جنرل سیٹ پر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ کراچی کی معروف سیاسی شخصیت سیدہ شہلا رضا بھی کبھی جنرل نشست پر منتخب نہیں ہو سکیں جبکہ ان کی نجی زندگی اور سیاسی سفر کو دیکھا جائے تو وہ ہمیشہ سے پرخطر حالات سے نبرد آزما رہی ہیں۔

سیدہ شہلا رضا ان چند سیاست دانوں میں شامل ہیں جو اپنے بیانیے کو پر اثر طریقے سے مخالف کے سامنے رکھتی ہیں۔ 2018 میں سیدہ شہلا رضا خواتین کی مخصوص سیٹ سے سندھ اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئی تھیں۔ 2013 میں وہ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئیں جبکہ اس سے پہلے بھی وہ 2008 میں سندھ اسمبلی کی بلامقابلہ ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئی تھیں۔ مگر وہ کبھی بھی جنرل نشست پر منتخب نہیں ہو سکیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کہتی ہیں کہ میں نے 2018 میں پی ٹی آئی چیئرمین کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا۔ وہ اس حلقے میں آئے اور نہ ہی یہاں کوئی جلسہ کیا۔ وہ آج سیاست میں نہیں لیکن میں آج بھی اپنے اسی حلقے میں اپنے لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔ ہمارے مقابلے میں مرد یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جنرل سیٹ مل جائے گی اور خواتین مخصوص نشست پر منتخب ہو جائیں گی۔ اب خواتین ہر جگہ اپنی صلاحتیوں کو منوا چکی ہیں۔ یہ پارٹی کی مرضی ہے وہ جسے چاہے جنرل نشست پر انتخاب کے لیے کھڑا کر دے۔ ہمارے ہاں آخری وقت میں پارٹی فیصلہ کرتی ہے کہ آپ اس حلقے سے انتخاب لڑیں لیکن میں جس حلقے میں ہوں اس پر میں نے بہت محنت کی ہے اور آئندہ انتخابات میں یہیں سے حصہ لینا پسند کروں گی۔

ان کے مطابق پارٹی کی ہمیشہ سپورٹ ہوتی ہے اور خاتون ہونے سے فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی نقصان۔ یہ تو ووٹرز اور حلقے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہاں کے رہائشی کس امیدوار کو جتوانا چاہتے ہیں۔ شاید خواتین جنرل سیٹ پر اپلائے ہی نہیں کرتی ہیں۔ کوئی مشکلات نہیں ہوتی ہیں جیسے نارمل الیکشن ہوتے ہیں، ویسے ہی ہوتے ہیں۔

خوش بخت شجاعت کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں۔ انہوں نے تعلیم، پاکستان ٹیلی ویژن، پھر سیاست میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ خوش بخت شجاعت کہتی ہیں کہ خواتین بے شمار صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں، محض انہیں سامنے لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر خواتین کو موقع فراہم کیا جائے تو وہ آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتی ہیں۔ میں نے خود اپنی پارٹی سے درخواست کی تھی کہ میں مخصوص نشست پر منتخب نہیں ہونا چاہتی، مجھے جنرل نشست پر لڑنے کا موقع فراہم کیا جائے جس کی میری پارٹی نے حوصلہ افزائی کی۔

ان کے مطابق جو بھی لڑتا ہے ووٹر اس کی شخصیت، ماضی، کام اور کامیابیوں کو ضرور ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کا نظریہ، خدمت کرنے کا جذبہ اور پہلے کئے گئے کام اور آگے کی حکمت عملی کے حوالے سے ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ جنرل سیٹ پر الیکشن لڑنا مشکل کام بھی ہے۔ اس میں براہ راست آپ کا مقابلہ مرد امیدوار کے ساتھ ہوتا ہے۔ مرد خواتین کی نسبت الیکشن میں زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ خواتین زندگی کے دیگر معاملات سے بھی جڑی رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے جنرل نشست پر الیکشن لڑنے میں پارٹیاں بھی ساتھ نہیں دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا میرا تعلق کراچی سے ہے اور لوگ میرے کام اور خدمات کو ہمیشہ سراہتے آئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے الیکشن 2008 میں بھرپور کامیابی ملی۔ اس کے علاوہ میں آپ کو بتاتی چلوں کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے ہم نے بائیکاٹ کیا تھا، ورنہ ہمیں ہرانا ناممکن تھا۔ اس کے علاوہ آرٹس کونسل آف پاکستان 1948 سے کام کر رہا ہے، میں واحد خاتون ہوں جو اس کی تین بار صدر منتخب ہو چکی ہوں جہاں صرف دانشور، ادیب اور با صلاحیت لوگ ہی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر آپ پاکستان کے دیگر علاقوں پر غور کریں کہ ایسی خواتین جیت کر آ جاتی ہیں جن کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ ہی کوئی پارٹی وابستگی ہوتی ہے۔ بس وہ پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے کسی بڑے گھر سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ خواتین ہمیں خود بھی کہتی ہیں کہ میں تو کبھی کسی کمپین کا حصہ نہیں بنی۔ جبکہ ہم کراچی میں ہر کارنر میٹنگ، ہر پبلک میٹنگ میں لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین سے متعلق ہمارے یہاں یہ تاثر قائم ہے کہ شاید وہ بہتر انداز میں اپنا آؤٹ پٹ نہ دے سکیں لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ جنرل نشست پر خواتین کے جیتنے کے لیے ان کی کارکردگی، صلاحیت اور اہلیت ہونا بھی ضروری ہے۔

پارٹیوں کی جانب سے خواتین کو معاونت اور مدد ملتی آئی ہے۔ خوش بخت شجاعت ایم کیو ایم کی سینیئر رکن ہیں جو ہر پلیٹ فارم پر پارٹی کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں۔ کراچی میں پہلی بار جنرل سیٹ سے الیکشن لڑنے والی خاتون ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں این اے 250 میں ایم کیو ایم کی امیدوار خوش بخت شجاعت نے پیپلز پارٹی کے امیدوار مرزا اختیار بیگ کو ہرایا تھا لیکن اگر کراچی کے الیکشن کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں ایک تو کم خواتین کو جنرل نشست پر کھڑا کیا جاتا ہے، دوسرا وہ کامیاب نہیں ہو پاتی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ نے جب بھی ماضی میں انتخابات میں حصہ لیا تو ان کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے پارٹی پوسٹر پر صرف ان کے قائد الطاف حسین کی تصویر آویزاں کی جاتی تھی اور جو امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہا ہوتا تھا اس کی تصویر کبھی نہیں لگائی گئی۔ لیکن خوش بخت شجاعت ایم کیو ایم کی واحد خاتون تھیں جنہوں نے پہلی بار ایم کیو ایم کے پوسٹر پر اپنی تصویر لگا کر اسے آرٹس کونسل کراچی میں لگوایا جس پر لوگوں کی نہ صرف تنقید بلکہ توجہ کا مرکز بنیں۔

خوش بخت شجاعت کہتی ہیں کہ جس دن ہمارے ہاں لینڈ ریفارمز ہوں گی، جاگیردارانہ اور زمیندارانہ نظام ختم ہو گا اس دن اس قوم کی عورت بھی اسی طرح کھڑی ہو گی جس طرح دنیا میں عورت نظر آتی ہے۔ ہمارے یہاں جاگیردارانہ نطام کی ذہنیت نے ہماری عورت کو دبوچ کر رکھا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہماری سیاست میں قبصہ کس کا ہے، پارلیمںٹ میں لوگ کون سے بیٹھے ہیں، نسل در نسل سیاست بھی منتقل ہو رہی ہے، پارلیمنٹ کو جوائنٹ فیملی سسٹم بنایا ہوا ہے۔

خواتین کو جنرل پرویز مشرف کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے جنہوں نے ان کے لیے مخصوص نشستوں کو متعارف کرایا۔ اس وقت جو ہمارے پاس خواتین کی مخصوص نشستیں ہیں وہ دنیا کے بے شمار ممالک میں اب بھی نہیں ہیں۔ میں کہتی ہوں خواتین کو اپنے حلقوں سے الیکشن لڑ کر منتخب ہونا چاہئیے۔ ایک خاتون بہترین منتظم ہوتی ہے اور اگر آپ کرپشن کے معاملات دیکھیں تو کہیں خاتون کا نام نہیں آئے گا۔ اگر خواتین کو موقع ملتا ہے تو ضرور الیکشن لڑیں اور جنرل سیٹ پر منتخب ہو کر آئیں تاکہ وہ عوام کو جوابدہ ہوں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد بھی بمشکل گزشتہ الیکشن میں ایک مخصوص نشست پر شرمیلا فاروقی کو لایا گیا۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اب تک وہ جنرل سیٹ پر الیکشن نہیں لڑ سکی ہیں۔ شرمیلا فاروقی کہتی ہیں کہ میں نے آج تک جنرل سیٹ کے لیے اپلائے ہی نہیں کیا تو ٹکٹ کیسے ملے گا۔ یہ ایک مسئلہ ہے، خاتون امیدوار یہاں سے کامیاب نہیں ہو پاتیں آسانی سے، مردوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کا الیکشن میں حصہ لینا ایک بہت بڑی بات ہے۔ کامیابی کے لیے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے، انہیں پارٹی کے منشور سمیت جیتنے کے بعد کیا پروگرام یا مںصوبے لانے کے خواہش مند ہیں، بتانا پڑتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کی خاتون ڈائریکٹ ایک وقت میں زیادہ لوگوں سے مل نہیں سکتی۔ کراچی کی سیاست کا محور کارنر میٹنگز یا پبلک میٹنگز رہا ہے۔ گلی محلے میں لوگوں کے ساتھ ملنا ملانا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ خاتون امیدوار کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا یا پھر کچھ معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ سے وہ اس عمل میں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لے پاتی ہیں۔ کیونکہ کارنر میٹنگز کراچی میں عموماً رات 11 بجے سے شروع ہوتی ہیں اور رات گئے تک چلتی رہتی ہیں۔

خواتین ووٹرز کا کردار الیکشن کو کامیاب اور ناکام بنانے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ خواتین مردوں کی طرح بڑھ چڑھ کر الیکشن کے عمل کا حصہ نہیں بنتیں، نہ ہی حق رائے دہی بھرپور انداز میں استعمال کرتی ہیں۔ اگر کسی الیکشن کا ٹرن آؤٹ 50 فی صد آتا ہے اس میں اگر ہم مکمل طور پر خواتین کو شامل کریں تو وہ ٹرن آؤٹ 80 سے 85 فی صد تک پہنچ سکتا ہے۔

گھروں یا دفتروں میں کام کرنے والی خواتین مختلف وجوہات کی بنا پر اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتی ہیں۔ اگر یہ مکمل طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں تو کسی بھی امیدوار کو کامیاب اور ناکام بنانا ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کسی خاتون امیدوار کو اگر خواتین ووٹرز کامیاب کروانا چاہیں تو ایسا کر سکتی ہیں۔

ماضی میں قائد ایم کیو ایم الطاف حسین نے انتخابات کے دوران یہ مہم چلائی تھی کہ الیکشن کے روز کوئی خاتون ناشتہ یا کھانا نہیں بنائے گی۔ اس روز مرد کام کریں گے اور خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے الیکشن کا ٹرن آؤٹ بہتر رہا تھا۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ گھروں میں اور دفتروں میں کام کرنے والی خواتین الیکشن مہم کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔

تبسم ملازمت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں جب میں نے پہلی مرتبہ ووٹ دیا تھا تو اتنا ہوش نہیں تھا، نہ ہی کوئی خاص اس وقت شعور تھا لیکن اب میں حالات اور واقعات کو بہتر سمجھتی ہوں۔ ہم ایسا امیدوار چاہتے ہیں جو عوامی مفاد میں ہو، جو اس حلقے کے لوگوں کے مسائل ٹھیک طرح سے حل کر سکے۔ ہمارے معاشرے میں خاتون امیدوار اس لیے بھی جیت نہیں پاتی کہ اسے قبول نہیں کیا جاتا۔

عابدہ علی بینک میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کوئی خاتون امیدوار کھڑی ہو تو اس کو ووٹ دیں لیکن ہمارے یہاں تو خاتون بہت کم جگہوں سے کھڑی ہوتی ہیں۔ ووٹ تو ہم بھی اپنی مرضی سے کاسٹ کرتے ہیں لیکن بس ہمارے حلقے سے خواتین کھڑی ہونے کا معاملہ تو سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں خواتین کو جنرل نشست پر نامزد کرنے کی روایت نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خواتین کا سیاست میں محدود کردار ہے۔ کسی بھی جماعت کا مرد امیدوار حلقے کے عوام سے سارا سال خوشی اور غمی کے موقعوں پر رابطہ رکھتا ہے، ان کے مسائل حل کرتا ہے لیکن خواتین امیدوار ایسا نہیں کر پاتیں جس کی وجہ سے ٹکٹ دیتے ہوئے سیاسی قیادت ایسے امیدواروں کو ترجیح دیتی ہے جن کا حلقے میں اثر و رسوخ ہو۔

پاکستان پیپلز پارٹی ہی کی رہنما سعدیہ جاوید کہتی ہیں کہ جنرل سیٹ پر الیکشن لڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہمارا معاشرہ اب تک خواتین کی حیثیت کو اس طرح سے قبول نہیں کرتا۔ ہم سیاسی طور پر بیان بازی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو اس پر ایک امیدوار کا کم از کم خرچ 6 سے 7 کروڑ ہوتا ہے۔ مرد امیدواروں پر لوگ خرچ کرتے ہیں کہ یہ کسی طرح سے جیت جائیں لیکن خواتین کے معاملے میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ سندھ کے دیگر اضلاع سے اگر خواتین جنرل سیٹوں پر جیت کر آتی ہیں تو ان کی نسل در نسل سیاسی جماعت سے وابستگی رہی ہوتی ہے جس میں پہلے دادا سیاست میں تھا، پھر والد اور اب وہ خود ہیں تو وہ خواتین بہ آسانی جیت کر آ جاتی ہیں۔ شازیہ عطا مری جنرل سیٹ پر نہ صرف جیتی بلکہ انہوں نے پیر پگاڑا کو ہرایا تھا۔ ماضی میں کراچی سے ایم کیو ایم کی شاہدہ رحمانی، شمیم ممتاز، پیپلز پارٹی کی شہلا رضا انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں۔

اس میں ایک اور مسئلہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ابہام کا شکار ہوتی ہیں کہ خاتون امیدوار کو کس حلقے سے انتخابات میں کھڑا کریں۔ ایک دم سے ٹکٹ ملنا، پھر آپ نے اس حلقے میں محنت نہیں کی ہوتی، لوگوں کو جانتے نہیں اور ان کو ملتے نہیں تو وہ کیسے آپ کو ووٹ دیں گے۔ باقی فنانس بہت اہم ہے۔ جو امیدوار کمپین میں بہتر انداز سے خرچہ کر سکتا ہے وہ جیت جاتا ہے جبکہ فنانس کے معاملے میں بھی خواتین کمزور ہیں۔

ایم کیو ایم کی رعنا انصار سندھ اسمبلی کی پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں خواتین جنرل سیٹ پر کھڑی ہوتی آئی ہیں۔ خواتین کا گھر سے نکلنا بھی آج تک مسئلہ ہے۔ حلقے میں جانا اور لوگوں سے ملنا ملانا یہ ایک اہم پیش رفت ہوئی تھی۔ الیکشن میں حصہ لینے کو ہمارے یہاں معاشرے کے رویوں کی وجہ سے تھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ نہ کارنر میٹنگز میں خواتین جا پاتی ہیں، نہ رات میں نکل سکتی ہیں۔ ہمارا اب تک وہ ماحول ہی نہیں بنا جس میں خواتین آزادانہ طور پر کام کر سکیں۔

2013 کے انتخابی نتائج کے ایک سرسری جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی خواتین نے جنرل نشستوں پر شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ سمیرا ملک نے خوشاب کے حلقہ NA-69 سے 1,18,108، غلام بی بی بھروانہ نے چنیوٹ کے حلقہ این اے 88 سے 87,002 جبکہ سائرہ افضل تارڑ نے حافظ آباد کے حلقہ این اے 102 سے 93,013 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر عذرا فضل نے نواب شاہ این اے 213 سے 1,11,667، ان کی بہن فریال تالپور نے لاڑکانہ این اے 207 سے 83,916 اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بدین این اے 225 سے 1,10,684 ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہ نتائج اس بات کا اشارہ ہیں کہ جن علاقوں میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی آزادی تھی، وہاں نتائج کتنے شاندار رہے ہیں۔

سینیئر تجزیہ نگار ناصر بیگ چغتائی کہتے ہیں کہ کراچی سے جنرل سیٹ پر کسی خاتون امیدوار کا منتخب ہو کر نہ آنا ایک المیہ ہے، افسوسناک بات ہے۔ جس شہر کو آپ پڑھے لکھے لوگوں کا شہر کہتے ہیں، باشعور اور علم دوست لوگوں کا شہر کہتے ہیں، الیکشن میں خواتین امیدواروں کے منتخب ہونے کے عمل میں وہ علم کہاں بکھر جاتا ہے، یہ اہم سوال ہے۔ بڑی حیرانگی ہوتی ہے ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی شہلا رضا جیسی پڑھی لکھی، سمجھدار اور باشعور خواتین جنرل سیٹ ہار جاتی ہیں اور وہ بھی ان علاقوں سے جو پڑھے لکھے لوگوں کے علاقے ہیں، باشعور لوگوں کے علاقے ہیں، سمجھدار لوگوں کے علاقے ہیں۔

پھر المیہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین امیدواروں کی حوصلہ افزائی اس طرح نہیں کرتیں جیسے انہیں کرنی چاہئیے۔ ذہنوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھتا کہ کلفٹن، فیڈرل بی ایریا، لالو کھیت اور لیاری جیسے علاقوں سے خواتین جنرل سیٹ پر کیوں نہیں منتخب ہوتیں بلکہ انہیں تو الیکشن کے لیے ٹکٹ تک نہیں فراہم کیا جاتا۔ کراچی کے عوام اس کے ذمہ دار ہیں کہ وہ خواتین امیدواروں کو کیوں کامیاب نہیں کروا پاتے۔ ہم کتنی بھی روشن خیالی کی باتیں کر لیں لیکن اصل میں ہماری حقیقت ایک رجعت پسند والی ہے۔ خواتین جنرل سیٹ پر الیکشن ضرور لڑیں لیکن قابلیت کی بنیاد پر، ذہانت اور صلاحیت کی بنیاد پر۔ سندھ کے دیگر اضلاع سے خواتین امیدوار جنرل سیٹ پر منتخب ہو سکتی ہیں تو کراچی سے کیوں نہیں؟

سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ کراچی سے جنرل سیٹ پر خواتین کا منتخب نہ ہونے کا اہم سبب پارٹی کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہونا ہے۔ اس پر سیاسی جماعتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں خاتون امیدواروں کی بھی غلطی ہے کہ وہ جنرل نشست کے لیے خود اپلائی نہیں کرتی ہیں۔ خواتین خود بھی مخصوص نشستوں پر آنا چاہتی ہیں۔ کمپین سمیت سیاسی جماعت اور ووٹرز کا قصور ہے کہ وہ انہیں کامیاب نہیں بناتے ہیں اور یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج تک کراچی میں جنرل سیٹ سے خوش بخت شجاعت کے علاوہ کوئی خاتون منتخب ہو کر اسمبلی نہیں پہنچی۔