سی ڈی اے کے پانچ کمیونٹی سنٹرز پر بھی مافیا کا قبضہ ہے، نیادور کو موصول ہونیوالی دستاویزات میں انکشاف

سی ڈی اے کے پانچ کمیونٹی سنٹرز پر بھی مافیا کا قبضہ ہے، نیادور کو موصول ہونیوالی دستاویزات میں انکشاف
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے پانچ کمیونٹی سینٹرز پر مافیا کا قبضہ ہے اور مقامی لوگوں کے لئے بنائے گئے فلاح بہبود کے مراکز میں کاروباری سرگرمیاں چل رہی ہیں۔

نیا دور میڈیا کو موصول ہونے والی  دستاویزات کے مطابق سال 1998 اور سال 2002 میں وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے 18 پلاٹ کم قیمت پر نیلام کئے تھے تاکہ اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں ایسے فلاحی مراکز قائم کئے جائیں جہاں بسنے والے لوگوں کے لئے لائبریریاں، کمیونٹی سینٹرز اور کھیل کود کے لئے مراکز کے اندر مواقع فراہم کئے جائیں مگر دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ پانچ کمیونٹی سنٹرز میں کاروباری سرگرمیاں چل رہی ہیں اور مقامی لوگوں کا داخلہ وہاں ممنوع کر دیا گیا ہے۔

دستاویزات میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ سی ڈی اے کی جانب سے نیلام کئے گئے 8 پلاٹ تاحال خالی پڑے ہیں اور بیس سال گزرنے کے باوجود تاحال ان پر مقامی لوگوں کے لئے فلاحی مراکز قائم نہیں ہو سکے ہیں اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ وہ زمینیں کن مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔

نیا دور کے ساتھ موجودہ دستاویزات میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ سی ڈی اے قوانین کے مطابق نیلام کئے گئے تمام پلاٹس پر 70 فیصد آبادکاری کی جائے گی اور 30 فیصد زمینوں کو خالی چھوڑا جائے گا مگر دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ کسی بھی کمیونٹی سنٹر کے پلاٹ پر 30 فیصد زمین خالی نہیں چھوڑی گئی اور تمام زمینوں کو تعمیرات کی مد میں سو فیصد قبضہ کیا گیا ہے۔

دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سی ڈی اے بورڈ نے سال 2003 میں ایک غیر قانونی حکم نامے میں تمام لوگوں کو یہ اجازت دی تھی کہ پلاٹوں پر  سو فیصد تعمیرات کی جائیں گی تاہم سی ڈی اے نے اپنے قوانین کی پاسداری بھی نہیں کی ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ نیلام کئے گئے 18 پلاٹ انتہائی کم قیمت پر فروخت کئے گئے تھے تاکہ اسلام آباد میں بسنے والے لوگوں کے لئے نہ صرف تفریح کے مواقع پیدا کئے جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مقامی سیکٹرز میں بسنے والے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے مگر یہ منصوبے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قومی خزانے کو کم قیمت میں زمین فروخت کرنے کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا۔

دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ سیکٹر F-11/2 میں مقامی لوگوں کے لئے بنایا گئے کمیونٹی سنٹر پر گزشتہ کئی سال سے مافیا کا قبضہ ہے اور کمیونٹی سنٹر کی جگہ میڈیسن کی ایک کمپنی کے کاروبار کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ اور عمارت کے اندر میڈیسن کی کمپنی کا دفتر بھی موجود ہے۔

سیکٹر F-11/3 میں مقامی لوگوں کے لئے بنایا گئے کمیونٹی سنٹر کی کہانی بھی قبضہ مافیا کے گرد گھومتی ہے۔ دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مرکز میں قائم کمیونٹی سنٹر کی عمارت کے اندر ایک مقامی ٹھیکے دار نے اپنا دفتر قائم کیا ہوا ہے اور مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق اسلام آباد کے پوش سیکٹر F-10/1میں قائم کیا گیا کمیونٹی سنٹر بھی گزشتہ کئی سالوں سے مافیا کے قبضے میں ہے اور سی ڈی اے تاحال سنٹر کو مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کے لئے مافیا سے آزاد نہیں کرا سکا ہے۔

دستاویزات میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیونٹی سنٹر کی عمارت کے اندر گزشتہ کئی سال سے ایک نجی ہسپتال قائم کیا گیا ہے اور وہاں مقامی آبادی کو داخلے کی اجازت نہیں۔

اس کے علاوہ سیکٹر F-10/2 میں مقامی آبادی کے لئے قائم کیا گئے سنٹر پر بھی مافیا کا قبضہ ہے۔ وہاں بھی مقامی آبادی کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسی مرکز کے اندر ایک سکن سپیشلسٹ کا کلینک بھی ہے جو گزشتہ کئی سال سے یہاں پر قابض ہے۔ یہاں بھی مقامی آبادی کو جانے کی آجازت نہیں۔

پانچواں کمیونٹی سنٹر جو  G-9/4 سیکٹر میں واقع ہے، کا ذکر بھی قبضہ مافیا سے جوڑا گیا ہے۔ کمیونٹی کے لئے بنائی گئی اس عمارت کے اندر ایک انٹرنیٹ کیفے اور دیگر دفاتر غیر قانونی طریقے سے بنائے گئے ہیں اور مقامی افراد کا داخلہ ممنوع بنا دیا گیا ہے۔

نیا دور میڈیا نے جب اس حوالے سے سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول کے ڈائریکٹر فیصل نعیم سے مؤقف لیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام معلومات ہمیں موصول ہو گئی ہیں اور جلد ان تمام قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی ہو گی۔

سی ڈی اے کے ایک افسر نے نیا دور میڈیا کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کمیونٹی مراکز پر قبضہ کچھ دن پہلے کیا گیا بلکہ سالوں سے یہ قبضہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ سی ڈی اے نے 18 پلاٹس سستے داموں بیچ کر  ایک طرف ملکی خزانے کو ٹیکہ لگایا تو دوسری جانب مقامی لوگوں سے مذاق کیا گیا ہے۔

 انھوں نے کہا کہ سی ڈی اے میں ہر کسی کو معلوم ہے کہ قبضہ مافیا یہ جگہ مفت میں استعمال نہیں کر رہے ہیں بلکہ کچھ اعلی افسران اور حکومتی عہدیداروں کو ان کا پورا معاوضہ غیر قانونی طریقے سے ملتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ صرف قبضہ ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اب انکوائری کی بھی ضرورت ہے کہ معلوم کیا جائے کہ گزشتہ سالوں میں کس کس افسر نے ماہانا رقوم ان مراکز سے غیر قانونی طریقے سے وصول کی۔

دستاویزات میں واضح کیا گیا ہے کہ سی ڈی اے نے تین سو گز سے کم پلاٹس کے مالکان کو بورڈ میٹنگ کے ذریعے غیر قانونی طور پر سو فیصد زمین پر تعمیرات کے اجازت نامے جاری کئے مگر جن کمیونٹی مراکز کی زمینیں تین سو گز سے زائد تھی انھوں نے بھی اس حکم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام زمینوں پر قبضہ کیا۔

نیا دور میڈیا نے چئیرمین سی ڈی اے عامر علی احمد اور میڈیا ترجمان سید صفدر شاہ سے اس حوالے سے  موقف جاننے کی کوشش کی مگر انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔