سول عدالتیں منصفانہ فیصلے کریں تو ملٹری کورٹس کی ضرورت ہی نہ رہے

سول عدالتیں منصفانہ فیصلے کریں تو ملٹری کورٹس کی ضرورت ہی نہ رہے
محض انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات کی بنیاد پر آئین و قانون اور انصاف کی امن و سیاسی استحکام قائم رکھنے کی منشا کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا اور نا ہی ملکی دفاعی اداروں پر حملہ آور جتھوں کو ان کے اثر و رسوخ اور تعلقات کی بنیاد پر انصاف سے بالا تر سمجھا جا سکتا ہے۔ جہاں انسانی حقوق کی پاسداری اور انصاف کی فراہمی کے ماحول کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے وہاں قانون کی حکمرانی اور اداروں کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔

فوجی عدالتوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور مؤقف یہ لیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں کارروائی شفاف نہیں ہوتی اور انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ درخواست اعتزاز احسن صاحب کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

اعتزاز احسن صاحب خود بحالی عدلیہ تحریک کے روح رواں رہے ہیں اور عدلیہ کی بحالی کے بعد بھی ان کی آواز ہمیشہ سپریم کورٹ کی بہتر ساکھ کے لئے اٹھتی رہی ہے اور وہ حالیہ سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم پر بھی افسردہ رہے ہیں۔ اب وہ پاکستان کی قانونی تاریخ میں ایک نیا باب لکھنے جا رہے ہیں تو ان کو چاہئیے کہ وہ اس کو متنازع ہونے سے بھی بچائیں اور اس ضمن میں ان کو اپنی درخواست کے ساتھ ہی یہ استدعا بھی کر دینی چاہئیے تھی کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کا فل بنچ سنے تا کہ کل کوئی اس درخواست کے فیصلے پر قانونی یا اخلاقی سوالات نہ اٹھا سکے۔

اگر فل کورٹ کی استدعا نہ کی گئی تو جس طرح سے سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات کے بندوبست کے ذریعے سے کئے گئے فیصلوں پر اٹھنے والے اخلاقی و قانونی سوالات اور تین چار اور دو تین کے تناسب کے تاثرات کے نتائج نے ان پر عمل درآمد کو متاثر کیا وہی معاملہ پھر سے دہرایا جا سکتا ہے۔

میری ان معزز وکلا سے مودبانہ گزارش ہے کہ یہ قانون 1952 سے نافذالعمل ہے اور 2015 میں فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں کے خلاف ٹرائل کے لئے سیکشن 2 میں ترمیم کی گئی اور غالباً اس وقت اعتزاز احسن خود سینیٹ کے ممبر ہی نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر بھی تھے۔ حسین اتفاق یہ ہے کہ اس وقت لیڈر آف دی ہاؤس راجہ ظفر الحق اور چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور یہ سب وکیل تھے۔ ان کے سینیٹ کے ممبر ہوتے ہوئے یہ ترمیم ہوئی اور ان کے سامنے ان عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل ہوتے رہے۔ سردار لطیف کھوسہ اس وقت کی حزب اختلاف جماعت پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری تھے۔

پھر اس کے بعد سابق وزیراعظم جن کے مقدمات اب فوجی عدالتوں میں جانے کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے ان کے اپنے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل ہوتے رہے، سزائیں ہوئیں مگر ان سے اس وقت کی پارلیمان میں کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ تو کیا اس وقت سب جائز تھا اور اب اچانک ان کو کیسے خیال آ گیا کہ یہ سب انسانی حقوق کے خلاف ہے؟ کیا ان تضادات سے ملکی امن و سیاسی استحکام کو خراب کرنے اور انسانی حقوق کے نام پر مفادات کی سیاست کا تاثر نہیں ابھر رہا۔

کیا یہ معاملہ پیج بدل جانے کا ہے یا واقعی انسانی حقوق کا ہے؟ اگر انسانی حقوق پر آواز اٹھانی ہے تو پھر بنچ اور بار دونوں جہاں جہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس کو چیلنج کریں۔ لاپتہ افراد کے لئے بھی آواز اٹھنی چاہئیے اور کسی کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں ہونی چاہئیے۔ ان کے اپنے ادوار میں بھی جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں جس کا ان کے اپنے وزرا اعتراف کر رہے ہیں، ملوث لوگوں کو سزا ملنی چاہئیے۔ انسانی حقوق کا معاملہ انسانوں کا ہی رہنے دیں، اس پر سیاست نہ کریں۔

بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں بارے جن خدشات کا انہوں نے اظہار کیا ان کے بارے سول کورٹس میں جو مقدمات ابھی چل رہے ہیں کیا ان میں اعتراضات اور تحفظات کا کوئی اظہار نہیں کیا جا رہا؟ حکومت جن شہادتوں کے ساتھ سول کورٹس کی کارروائیوں کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کر رہی ہے کیا وہ قانون و انصاف کے اصولوں کے مطابق سب کچھ ٹھیک ہوا ہے؟

کیا اس ملک کے سیاہ ترین فیصلے جن کا تمام وکلا ہر روز ذکر کرتے ہیں وہ سول کورٹس سے نہیں ہوئے؟ کیا بھٹو کو کسی فوجی عدالت نے پھانسی دی تھی؟ کیا وزیر اعظموں اور سیاست دانوں کو فوجی عدالتیں نااہل کرتی رہی ہیں؟ کیا آئین کے آرٹیکل 63 کی متضاد تشریحات نہیں کی گئیں؟ اور اس کے باوجود حکومتوں نے ان پر دونوں دفعہ تضادات کے باوجود عملدرآمد نہیں کروایا۔ حد ہوتی ہے کسی بھی معاملے کی، کیا ان سارے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اندر سے آواز نہیں اٹھائی جا رہی؟ کیا اس ساری صورت حال کے بعد بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات صرف فوجی عدالتوں پر ہی ہیں؟

کیا دو دن قبل نیب کے جج کی وڈیو پر لندن ہائیکورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے جس میں موصوف جج یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان سے دباؤ ڈال کر وہ فیصلہ لیا گیا تھا، پاکستان کی عدلیہ کی انسانی حقوق کی پاسداری کی مثالوں کے لئے ثبوت کافی نہیں؟ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی عدل کے ایوانوں میں گونجتی شہادتیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں؟ ہے کوئی جو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے کہ اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے اس معاملے کی انکوائری بھی ضروری ہے؟ کیا ضروری نہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر کوئی ایکشن لے یا کم از کم ان کی اپیل کو ہی سن لے؟ یہ معاملہ تو انسانی حقوق کا ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق پر عمل درآمد کروانے والوں کی حیثیت کا ہے۔

جو جرنیلوں کی خوشنودی کی خاطر اپنے ہاتھ کاٹتے رہے، اپنے تشخص کو مسخ کرتے رہے، آئین کا قتل عام کرتے رہے، یہاں تک کہ اپنی ہی ہم مرتبہ عدالتوں کے وجود تک کو ختم کر دیا آج وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کا درس دے رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ سب وہاں سے چشم پوشی کی دلیریاں ہیں وگرنہ وہاں سے جاری فرمان پر عمل باعث شرف سمجھا جاتا رہا ہے۔ عجب فلاسفی ہے فوجی نگرانی کو باعث فخر سمجھا جاتا رہا ہے مگر فوجی عدالتوں کوغیر انسانی فعل۔

کوئی بھی فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں اور نا ہی بے گناہ لوگوں کو سزا دینے کی حمایت کی جا سکتی ہے مگر اس موجودہ صورت حال سے جو تاثر ابھر رہا ہے کیا ایسے میں ہماری سول کورٹس سے انسانی بنیادی حقوق کی پاسداری اور ان جرائم میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا ملنے کی کوئی ضمانت دے سکتا ہے؟

بقول ان معززین کے کہ ان مظاہرین کو ٹریپ کر کے وہاں لے جایا گیا تو میرا سوال ہے کہ اگر اس طرح سے ایک سیاسی جماعت کے صف اول کے قائدین، ریٹائرڈ افسران اور عدالت عالیہ کے ججز کے رشتہ داران کو ورغلا کر وہاں لے جایا جا سکتا ہے تو پھر اس خدشے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قانون اور انصاف کے نام پر اعلیٰ سطح کے عہدوں کو بھی ورغلا کر قانون و انصاف اور پاکستان کے امن و سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر تو اگر کوئی یہ کہے کہ فوجی عدالتوں سے بعض لوگ فوری، شفاف اور غیر جانبدارانہ انصاف سے خائف ہیں جس کے وہ عادی نہیں تو اس میں بھی وزن نظر آتا ہے۔

کیا پہلے اسی طرز پر پارلیمان، پی ٹی وی اور قانون نافذ کرنے والی فورسز پر حملے نہیں کئے گئے اور ان پر سول کورٹس کے فیصلے سب کو معلوم نہیں؟ اگر ان مقدمات پر دہشت گردی کی عدالتوں نے انصاف مہیا کیا ہوتا تو آج یہ چھاؤنیوں پر حملوں میں ٹریپ ہونے کی نوبت ہی کیوں آتی؟

کیا برطانیہ اور امریکہ میں ایسے بلوائیوں کے خلاف وہاں کی افواج نے اپنے قانون کے تحت کارروائیاں نہیں کیں؟

میری ان سے یہ بھی گذارش ہے کہ وہ اس کوشش کو پاکستان کے وکلا سے منسوب کر کے اپنے اچھے یا برے کریڈٹ کو اپنی برادری کے ساتھ نہ جوڑیں اور اگر وہ اس مؤقف کا استعمال کرنا ہی چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کے بڑے بڑے قانونی ماہرین جو ان کے اس مؤقف کی مخالفت کر رہے ہیں ان کے ساتھ ایک ڈائیلاگ کریں اور ان کو پہلے اپنے مؤقف پر قائل کریں۔ اگر ان کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اتفاق کے ساتھ اس درخواست میں ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ضرور دائر کریں وگرنہ کسی کو پوری برادری کے نام پر اس قانون کی حکمرانی کے نام پر سیاسی عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔

میری پاکستان کی وکلا برادری سے گذارش ہے کہ ان کو اگر پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی فکر ہے تو پھر ان کو ایک باہمی اتحاد کے ساتھ سپریم کورٹ میں ایک ایسی درخواست دائر کرنی چاہئیے جس میں سپریم کورٹ کی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے یہ استدعا کی جائے کہ اب تک ہونے والے تمام متنازعہ فیصلوں کے خلاف ایک اجتماعی ریویو کریں جن میں اپنے ادارے کے نام پر ہونے والی سابقہ اور موجودہ ججز کی تمام غلطیوں کا ازالہ کیا جائے اور پھر مستقبل میں ان کے سدباب کے لئے آئین و قانون اور انصاف کے اصولوں کی مطابقت سے وہ اصول وضع کریں جن سے یہ انصاف کے نام پر ظلم کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے۔

اگر ہماری سول کورٹس دہشت گردی کو ختم کر کے امن کو بحال کرنے کی ساکھ رکھتی ہوتیں تو ہم 2015 میں یہ ترمیم ہی کیوں کرتے؟ ان کے قائم کرنے کے اختیار کو فیڈرل حکومت کی منظوری سے مشروط رکھا گیا ہے جو عوام کی نمائندہ ہوتی ہے۔ جب عوام کی نمائندہ حکومت کسی خاص صورت حال میں فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس کر رہی ہو تو پھر اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں کرنا چاہئیے۔ ہمیں انسانی حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ امن اور سیاسی استحکام بھی چاہئیے جو ہماری بقا کے لئے لازم و ملزوم ہے پھر وہ بھلے فوجی عدالتوں سے ملے یا فوجداری عدالتوں سے۔

حکومت نے انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ اگر پھر بھی کہیں خلاف ورزی کا مشاہدہ ہو تو اس کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ان فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی محفوظ ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ اس معاملے کو خواہ مخواہ طول دے کر عوام کے اندر تذبذب کو بڑھانے اور بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہئیے مگر محض خدشات کی بنیاد پر ملکی امن اور سیاسی استحکام کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئیے۔