سینر تجزیہ نگار انصار عباسی نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات نتیجہ خیز نہ رہے تو ن لیگ حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرے گی۔
روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی اپنی خبر میں انہوں نے کہا کہ تمام تر توجہ اب 25 مئی پر مرکوز ہے، دوحہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کا نتیجہ ہی حکمران اتحاد کی سیاسی سمت اور مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔
انصار عباسی کے مطابق مذاکرات کا نتیجہ مثبت آنے کی صورت میں حکومت برقرار رہے گی چاہے پھر الیکشن سال کے آخر میں ہی کیوں نہ کرانا پڑیں۔ اگر مذاکرات کا نتیجہ اچھا نہ رہا تو ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ نون لیگ اتحادیوں کے ساتھ رجوع کرکے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرے گی۔ اتحادی حتمی فیصلہ کریں گے۔
انکا کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقے کے ساتھ اس منظر نامے پر بھی بات ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کی جانب سے مسائل کے حوالے سے مجوزہ حل پر حوصلہ افزا جواب نہ ملنے کی صورت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے پر بھی مشورہ کیا جا رہا ہے۔
اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ حکومت یکطرفہ طور پر معاشی فیصلے نہیں کر سکتی جن میں مشکل فیصلے بھی شامل ہیں کیونکہ ان فیصلوں کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔
اس بات پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ چونکہ حکومت چھوڑنے کا مطلب پاکستان کا نقصان ہوگا لہٰذا حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بیٹھ کر متفقہ طور پر فیصلے کرے تاکہ ملکی معیشت بحال ہو سکے جو پہلے ہی دیوالیہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملک کی معاشی صورت کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز بھی پریشان ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کو نگراں حکومت کی بجائے موجودہ حکومت کے ذریعے ہی معاملات میں شامل کیا جانا چاہیے۔ کچھ سرکردہ سیاسی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ نگراں حکومت سے توجہ کرنا غلط ثابت ہو سکتا ہے اور معیشت کے لیے اچھا ہونے کی بجائے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی موجودہ سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کی بنیاد پر فیصلے پر اصرار کر رہے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ وزیراعظم کو چاہیے کہ فوری طور پر قومی سطح پر ڈائیلاگ کا اہتمام کریں تاکہ اسٹیک ہولڈرز کو بوسیدہ معاشی صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے اور یہ بتایا جا سکے کہ اس وقت فوری طور پر مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے اس سے قبل کہ پاکستان ناقابل حل مسائل کی گرفت میں آ جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بہترین فورم قومی سلامتی کمیٹی ہے جہاں صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی کے اسپیکر، صوبائی وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس پاکستان، چیف جسٹس ہائی کورٹس اور دیگر کو وزیراعظم مدعو کر سکتے ہیں۔
اس اجلاس میں باریکی کے ساتھ معیشت کی تفصیلات پیش کی جائیں اور وہ فیصلے بتائے جائیں جو کرنا ہیں۔ نیشنل ڈائیلاگ میں قومی اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ اور آئندہ الیکشن کی تاریخ کا معاملہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے