تین کروڑ نفوس پر مشتمل شہر قائد مناسب عوامی ذرائع نقل و حمل سے نہ صرف محروم ہے بلکہ مستقبل قریب میں بھی ایسے آثار نظر نہیں آتے جس کی بنیاد ہم یہ کہ سکیں کہ شہر کراچی کے مکین مناسب عوامی ذرائع نقل و حمل سے استفادہ حاصل کرسکیں گے جبکہ عوامی ذرائع نقل و حمل کسی بھی ملک کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ اور ستون سمجھے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہے کہ کراچی دنیا کا ایسا بڑا شہر ہے جہاں شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک سفر کرنے کے لئے ریلوے کی بنیاد پر نقل و حمل کا نظام نہیں جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا میں ذرائع نقل و حمل میں ریلوے نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے-
کراچی کی ترقی کے لیے اب تک سات ترقیاتی منصوبے تشکیل دیے گئے جن میں سے دو قیام پاکستان سے قبل کے ہیں جبکہ پانچ قیام پاکستان کے بعد کے ہیں جن میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہر کراچی کے مکین بنیادی سہولتوں کے لحاظ سے آج تک بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں ۔جن میں سستی رہائش ، صاف پانی کی فراہمی ، سیوریج کا نظام و دیگر کے ساتھ ساتھ ایک بہت اہم مسئلہ عوامی ذرائع نقل و حمل کا بھی ہے- اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سستی رہائشی آبادیوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی اور رہائشی اکائیوں کی کمی کی وجہ سے شہر کراچی کی آبادی کا تقریباً پینسٹھ فی صد حصہ کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ۔ جبکہ سفر کے اعتبار سے ان کا انحصار عوامی ذرائع نقل و حمل پر ہے کیونکہ یہ شہری غریب طبقہ ہے - یوں کراچی کے مخصوص حالات اوردرپیش مسائل کے تناظر میں پائیدار نظامِ نقل و حمل کےنظام کاوجود اور اس کا نفاذ بہت ضروری ہوگیا ہے مگر کوئی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں-
شہر کراچی میں جب بھی عوامی ذرائع نقل و حمل کا تذکرہ کیا جائے تو سب سے پہلی بات جو آتی ہے وہ ہے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی- جو آج کل زبان زدعام ہے کیونکہ بظاہر یوں لگ رہاہے کہ بالآخر دو دہائیوں کے بعد کراچی سرکلر ریلوے بحالی کی جانب چل پڑی ہے مگر کیا یہ سرکلر ریلوے اپنے ٹریک پر چل رہی ہے؟؟ کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان ریلویز نے کراچی میں آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے1960 کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیاتھا اور کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی تا لانڈھی اور ملیر چھاؤنی کے درمیان لوکل ٹرینیں چلتیں تھیں۔
1970ء اور 1980ء کی دہائی میں روزانہ 104 ٹرینیں چلائی جاتیں تھیں جن میں 80 مرکزی لائن جب کہ 24 لوپ لائن پر چلتیں تھیں۔یوں کراچی سرکلر ریلوے تین لائنوں پر مشتمل تھی، مرکزی لائن جو کراچی سٹی اسٹیشن سے ہوتی ہوئی ڈرگ روڈ پر جاکر لوپ لائن سے جا ملتی تھی اور لوپ لائن جو ڈپو ہل اسٹیشن ، اردو کالج، گیلانی، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد،منگھو پیر،سائٹ، بلدیہ،لیاری سے ہو کروزیر مینشن اور پھرکے پی ٹی ہالٹ سے جا ملتی تھی جبکہ تیسری لائن جو ملیر لائن کہلاتی تھی جو ملیر کالونی اور ملیر چھاؤنی سے جا ملتی تھی-پھر 1999 میں یہ مکمل طور پر بند ہوگئی اور بیس سال بعد 9 مئی 2019 میں سپریم کورٹ نے اس کی فوری بحالی کا حکم دیا -
اور بالآخرنومبر 2020 میں کراچی سرکلر ریلوے کے نام پر دراصل لوکل ٹرین کا افتتاح کر دیا گیا ہے ہے اور لوکل ٹرین اپنے ٹریک پر چل پڑی ہے جیسا کہ پہلے بھی چلا کرتی تھی۔ تو یہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی تو نہ ہوئی بلکہ لوکل ٹرین چلا کر سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے یہ ٹرین مین لائن پر چلے گی اور یہ وہ روٹ ہے کہ جس پر کراچی آنے والی ہر ٹرین چلتی ہے صرف تھوڑا سا حصہ لوپ لائن کا اس میں شامل کیا گیا ہے جس میں وزیر مینشن سے لے کر اورنگی شامل ہے جبکہ کراچی سرکلر ریلوے کا اصل ٹریک تو وہ ہے جو شہرکے اندرونی حصوں پر مشتمل ہے جو ڈرگ روڈ سے ہوتا ہوا گیلانی، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آبادکو اورنگی کو سائیٹ سے ملاتا ہے –
زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پہلوان گوٹھ سے آپ کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک کو تلاش کریں اور رابعہ سٹی کے عقب سے لے کر الہ دین پارک کے عقب تک جائیں تو وہاں آپ کو ریلوے ٹریک کی بجائے سیوریج کا نالہ ملتا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ہونے والی تعمیرات بلخصوص کثیر منزلہ فلیٹوں نے اپنی سہولت کے سبب کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک میں سیوریج کی لائنوں کو ڈال دیا ہے جس پر اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی جبکہ ان ہی علاقوں میں حسین ہزارہ گوٹھ سے لے کر مجاہد کالونی تک کئی مکانات کومکمل اور جزوی مسمار کرکے ایک ہزار سے زائد خاندانوں کو جبری طور پر ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا تھا اور ان ہی علاقوں میں کراچی سرکلر ریلوے نہیں شروع کی جاسکی۔
چونکہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سپریم کورٹ کے احکامات پر کی جا رہی ہے تو یہ آدھی ادھوری کراچی سرکلر ریلوےسپریم کورٹ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ اگر سپریم کورٹ کے 9 مئی 2019 کے فیصلے کو دیکھا جائے تو یہ بھی واضح ہے کہ متعلقہ حکام سپریم کورٹ کے فیصلے کے دونوں حصوں پر عمل درآمد میں ناکام رہے ہیں جس میں پہلا تو ' کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی' سے متعلق تھا جبکہ دوسرا حصہ ' کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ ہزاروں کی تعداد میں رہائشی مکانات' سے متعلق تھا جس میں سپریم کورٹ نے واضح احکامات دئیے کہ " اس آپریشن میں جو لوگ متاثر ہوں یا بے دخل ہوں ان کی مناسب آبادکاری کی جائے اور اس سلسلے میں محکمہ ریلوے وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور میئر کراچی کی مدد لے سکتا ہے" جس پر سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا تھا کہ" تمام متاثرین کی نشاندہی کر دی گئی ہے سروے ہوچکا اور فہرست بھی تیار کر لی گئی اور اس سلسلے میں سندھ گورنمنٹ سے بات بھی ہو چکی ہے حکومت سندھ متاثرین کی آبادکاری کے لئے مناسب جگہ فراہم کرنے کو تیار ہے"۔
جبکہ جواب میں عدالت نے وزارت ریلوے اور حکومت سندھ کو خبردار کیا کہ " ان متاثرین کو جہاں بھی آباد کیا جائے ان کو مناسب طرز رہائش یعنی جدید طرز زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں –ساتھ یہ بھی کہا کہ اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ یہ متبادل جگہ کراچی شہر کی کسی اور پسماندہ آبادی کا منظر پیش کرے اس سلسلے میں منصوبہ بندی کے ماہرین، انجینئرنگ اور ماحولیاتی اداروں سے پیشگی مشاورت کر کے ان کی رائے لی جائے اور منتقلی کا یہ عمل ایک سال کی مدت میں مکمل کر لیا جائے" مگرافسوس کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہ ہوسکا-
جب کہ دوسری جانب تجاوزات کی مہم کا نشانہ بن کر بے دخل ہونے والے افراد جن اکثریت غریب لوگوں پر مشتمل تھی آج بھی انصاف کے منتظر ہیں کہ کب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگا اور انہیں (سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق) متبادل ' گھر 'ملے گا- جس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حسب معمول بے دخلی سے قبل کسی حکومتی ادارے نے ان آبادیوں کا کوئی سروے منعقد نہيں کیا۔
جبکہ ایک مکمل سروے کروانے سے نہ صرف اداروں کو یہاں کے مکینوں کی معاشی و معاشرتی حالت سمجھنے میں مدد ملتی بلکہ ان آبادیوں کی دوبارہ آبادکاری کی بہتر منصوبہ بندی کا طریقہ کار بھی مل جاتا۔