ہم جنس پسندی کے حامل افراد کے حقوق اور ان کی حمایت پراعتراضات اور بعض افراد کی جانب سے مذہبی حوالے دیکر لعنت وملامت اور گالم گلوچ کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ درج ذیل سطر میں مجھے بصد مجبوری ہم جنس پسندوں کے لئے اور گالم و گلوچ اور لعنت و ملامت کرنے والوں کےلئے بھی افراد کے الفاظ ہی کا سہارا لینا پڑا ہے۔ ہم جنس پسند ی کے حامل افراد بھی انسان ہیں ۔ یہی انسانی ہمدردی ہے کہ انہیں بھی انسان سمجھا جائے اور ان کے انسانی حقوق کی بات کی جائے۔ انہیں جینے کا حق دیا جائے۔ہم جنس پسندی کے حامل افراد کی حمایت اور ان کےحقوق کی بات کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ انہیں بھی زندہ رہنا ہے۔ کوئی شخص یا ادارہ انہیں زندگی دینے یا زندگی لینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔کسی بھی انسان کی جان اس کے غیرارادی فعل پر چھیننا گناہ کبیرہ ہے۔
اللہ تعالیٰ انسانی مساوات کو پیار کرتا ہے۔ ہم جنس پسندوں کو بھی اللہ نے ہی پیدا کیا ہے اور انسانی مخلوق ہیں۔اگر کسی عورت یامرد میں ذہنی ، جسمانی اور جنسی نقائص ہیں تو اس نے خود پیدا نہیں کیے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے مخصوص خاصیت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس میں مرد یا عورت کا کوئی قصور نہیں ہےاور نہ ہی وہ خود کو ایسا بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔اس لئے ایسے افراد سے نفرت کا اظہار کرنا قانون قدرت میں مداخلت کے مترادف ہے۔ دنیا بھر میں عورت اور مرد کےعلاوہ تیسری جنس کو تسلیم کرلیا گیا ہے جبکہ عورت اور مرد میں موجود دیگر شناختوں کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
عقیدے ،نسل اور شناخت کی بنیاد پر نفرت کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جس کی اجازت کوئی بھی مذہب نہیں دیتا ہے۔ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں صرف دوسال کے عرصہ میں مختلف جنسی شناخت کے حامل 80 افراد سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔جن میں زیادہ تر کا تعلق خواجہ سراء کمیونٹی سے تھا۔
انسانی جان کی حرمت اور قدر تمام عقیدوں ،روایات اور مذاہب سے اہم ترین ہے۔ عموی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں ہم جنس پسندی کبیرہ گناہ ہے۔ بغیر تحقیق اور سوچے سمجھےہم جنس پسندی کے تانے بانے حضرت لوط ؑ کی قوم سے جوڑے جاتے ہیں۔مگر یہ نہیں سمجھا جاتا ہے کہ قدیم ترین قوم لوط نے جنسی اختلاط کا یہ فعل ارادی طور پر اختیار کیا تھا۔ ان کی کوئی الگ سے شناخت ہرگز نہیں تھی۔ قدیم ترین روایات میں الگ شناخت کے حامل افراد کو قدیم معاشروں میں اہم حیثیت حاصل تھی ۔ انہیں محبت اور خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ ماضی قریب کی بادشاہتوں کے ادوار بھی انہیں خصوصی اہمیت دیتے تھے۔
پاکستان کی سرزمین پر آج کا عہد ظلم وبربریت کا عملی نمونہ بن گیا ہے۔ معاشرے میں کسی بچے،نوجوان یا بڑے کی ذرا سی الگ شناخت آشکار ہونے پر اس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔ سکول ،کالج،یونیورسٹی ،کام کی مقامات،دفاتر اور ایسی جگہیں یہاں اجتماع ہو۔الگ شناخت کے فرد کو ہر طرح سے فرض سمجھ کر تنگ کیا جاتا ہے۔
یہی تنگ کرنے والے ہی اسلام کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔خود پر اسلامی اخلاقیات نافذ کرنے کی بجائے دوسروں پر مسلط کرتے ہیں۔ یہ دہرا معیار اور منافقت معاشرے کی اولین شکل بن چکی ہے۔
موجودہ عہد شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کاہے۔
آج کے عہد کے تقاضے ہیں کہ خود ساختہ زنجیروں سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے اور ہر انسان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق ملے۔پاکستان ایک آئینی ریاست ہے اور اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹرز کو تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان کا ہر شہری بین الاقوامی برادری کا حصہ ہے۔پاکستان کسی الگ سیارے کا ملک نہیں ہے اور نہ کوئی الگ سے مذہبی ریاست ہے ۔
جس کا اپناکوئی الگ آئین اور قانون ہے۔ پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے۔ ملکی آئین و قانون کی پاس داری کرے ۔ کوئی شہری قانون سے بالاتر نہیں ہے ۔ملکی آئین و قانون کے مطابق ہم جنس پسندی کے حامل افراد یکساں شہری ہیں اور انہیں بھی جینے کا حق حاصل ہے۔