خیبر پختونخوا کے علاقے مانسہرہ کی اسسٹنٹ کمشنر ماروی ملک شیر کیساتھ ہراسانی کے واقعے میں ملوث ملزمان کے رشتہ داروں نے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کر دیا ہے۔
جیو نیوز کے مطابق ملزمان عتیق اور انیس کے رشتہ داروں نے گرفتاری کو زیادتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ ماوری ملک شیر نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔
دوسری جانب پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے کا مرکزی ملزم عمران حیدر عادی مجرم ہے۔ وہ پہلے بھی خواتین کو ہراساں کرنے کا مرتکب پایا گیا ہے۔ اس کیخلاف ایک مقدمہ بھی درج ہے جبکہ ایک واقعے میں پولیس نے اس کی درگت بھی بنائی تھی۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز لیڈی اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ ماروی ملک شیر پر حملے کے تینوں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ پولیس نے ملزمان کی گاڑی سے شراب اور اسلحہ بھی برآمد کیا۔
ڈی پی او مانسہرہ سجاد خان کے مطابق ملزمان میں ایک برطانوی پلٹ نوجوان بھی شامل ہے۔ ملزمان کی پجارو گاڑی سے تلاشی کے دوران دو بوتل شراب، ایک پستول، ایک ری پیٹر گن اور دو میگزین بھی برآمد ہوئے ہیں۔
ملزمان نے غازی کوٹ کے قریب لیڈی اسسٹنٹ کمشنر ماروی ملک کی سرکاری گاڑی کو روک کر بدتمیزی کی اور ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ ماروی ملک کی درخواست پر پولیس نے مقدمہ درج کر لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ ہراسانی کا شکار، حملہ کرنے والے تینوں ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل
پولیس نے تینوں ملزمان ملک عمران حیدر،ملک محمد عتیق اورانیس خان کو مجسٹریٹ آن ڈیوٹی سجاد خان کی عدالت میں پیش کیا جہاں عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والے سینٹرل سپیرئیر سروس (سی ایس ایس) کے امتحان میں ماروی ملک شیر اور سسی ملک شیر کے علاوہ تین اور بہنیں بھی اس امتحان میں کامیابی سمیٹ کر سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔
تھانہ سٹی مانسہرہ میں اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ ماروی ملک شیر کی درخواست پر درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ پجارو جیپ پر سوار تین نوجوانوں نے ہماری سرکاری گاڑی کا پیچھا کیا اور جابجا غلط کٹنگ اور ساتھ میں اپنے موبائل سے تصاویر لینے کی کوشش کی۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ جب ہماری گاڑی غازی کوٹ کے مقام پر پہنچی تو انھوں نے اپنی گاڑی کو ہماری گاڑی کے سامنے کھڑا کر کے روک لیا۔ تینوں گاڑی سے باہر نکلے انھوں نے پہلے گالم گلوچ اور تکرار کی۔ اس کے بعد گارڈ کے ساتھ ہاتھا پائی کی، میرے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی۔ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گاڑی سے نکالنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں میرا ہاتھ زخمی ہوا۔
اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ ماروی ملک شیر کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’انھوں نے ڈرائیور پر تشدد کیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ مجھے مارو۔ یہ بھی اے سی بن کر آئی ہے۔ ہمارے ہی پیسوں پر پل رہی ہے۔ ہم کسی اے سی، ڈی سی کو نہیں مانتے۔ نہ ہی کسی خاتون کو افسر کو مانتے ہیں۔
موقع پر موجود ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ کہ وہ اپنے شہر میں موجود خاتون اے سی کو چہرے سے جانتے ہیں۔ یہ ایک فعال افسر ہیں جو ہر وقت لوگوں سے ملتی رہتی ہیں اور مختلف مقامات کے دورے بھی کرتی رہتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ تین نوجوان ان کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے اور اونچی اونچی آواز میں بول رہے تھے۔
اس کا کہنا تھا کہ میں ایک دم پہنچا تو دیکھا کہ خاتون اے سی تینوں سے بڑی جرات سے کہہ رہی تھیں کہ تم تینوں نے بدتمیزی اور بدمعاشی کی انتہا کی ہے۔ تمہاری حرکتیں میں نے برداشت کی ہیں۔ جس پر وہ تینوں مزید گالم گلوچ کررہے تھے۔ اتنے میں کئی لوگ اکھٹے ہو گئے اور انھوں نے تینوں کو اپنے قابو میں کر کے پولیس کو اطلاع دے دی تھی کیونکہ سب لوگ خاتون اے سی کو اچھے طریقے سے جانتے تھے۔