چینی بحران رپورٹ: کب؟ کون؟ کہاں پھنسا؟

چینی بحران رپورٹ: کب؟ کون؟ کہاں پھنسا؟
چینی بحران پر ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ایجنسی) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے نو بڑے گروپس کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، وفاقی وزیر اسد عمر، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ کیا ہے‘۔

فرانزک آڈٹ رپورٹ میں چینی سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ریکوری کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ریکوری کی رقم گنے کے متاثرہ کسانوں میں تقسیم کر دی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی مل مالکان نے ٹیکس چوری کیا، اپنی آمدنی کو اصل سے کم دکھایا، فروخت بھی کم ظاہر کی اور ان پر فراڈ کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

اس رپورٹ کا حکومت کو سیاسی طور پر کیا فائدہ ہوگا؟

اس رپورٹ میں جہاں پاکستان تحریکِ انصاف کے مخالفین مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے سربراہان کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، وہیں اس کے خطرناک اتحادی چودھری برادران پر بھی قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے بڑھانے کا مرتکب قرار دیا ہے۔ عمران خان سے حال ہی میں جہانگیر ترین کی بھی دوریاں پیدا ہو گئی ہیں۔ رپورٹ نے جہانگیر ترین پر بھی الزامات لگائے ہیں۔ خسرو بختیار جو کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے سرکردہ رہنما تھے، انہیں بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی وزیر اعظم اس بات کا کریڈٹ بھی لے رہے ہیں کہ انہوں نے ایک بڑے سکینڈل سے متعلق تحقیقات کروا کے ساری کرپشن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ رؤف کلاسرا کے الفاظ میں یہ ایک تیر سے چھ شکار ہیں۔ انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ رپورٹ بنیادی طور پر عمران خان کو سیاسی فائدہ دے رہی ہے کیونکہ اس سے ان کے پارٹی کے اندر اور باہر مخالفین کو سیاسی نقصان پہنچا ہے لیکن اس سے بھی ایک بڑا کرپشن سکینڈل IPPs کا ہے، جس کی رپورٹ اس سے پہلے سے وزیر اعظم کے پاس ہے لیکن اس رپورٹ کو مکمل طور پر چھپا لیا گیا ہے کیونکہ اس میں چند بڑے کاروباری افراد کے نام آتے ہیں جو کہ خود پی ٹی آئی کو بھی فنڈ کرتے ہیں، لہٰذا وہ رپورٹ ایسے غائب کی گئی ہے کہ وزیر منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر تک کے پاس اس کی کوئی کاپی موجود نہیں۔

رپورٹ کے مطابق کون سی اہم شخصیات شدید خطرے سے دوچار ہیں؟

وزیر اعظم کے مخالفین تو اس رپورٹ کو اپنے خلاف ایک سیاسی چال قرار دیں گے۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی اسے مسترد کر چکی ہے۔ جہانگیر ترین بھی کہہ چکے ہیں کہ ان پر الزامات درست نہیں اور وہ عدالتوں کے ذریعے اس میں سے اپنا نام صاف کروائیں گے۔ لیکن وہ حکومتی عہدیدار جن کو اس رپورٹ میں فراڈ کا مرتکب قرار دیا گیا ہے، وہ کیا کریں گے؟

یوں تو ہر پارٹی سے اس میں اہم شخصیات پھنستی ہیں لیکن یہاں تین نام ایسے ہیں جن کا ذکر کیا جانا اس لئے ضروری ہے کہ نہ صرف یہ فیصلے لینے میں ان کا کلیدی کردار ہے بلکہ یہ وزیر اعظم عمران خان کے قریبی رفقا کار بھی سمجھے جاتے ہیں۔

اسد عمر

سب سے پہلا نام ہے اسد عمر کا۔ جس وقت چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا، اسد عمر اس وقت پاکستان کے وزیر خزانہ تھے اور یہ بنیادی طور پر ان کی ذمہ داری تھی کہ سبسڈی دینے کا فیصلہ کرتے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ابتدأً یہ سبسڈی دینے سے انکار کیا۔ تاہم، اگلے ہی ماہ ایک اور اجلاس میں انہوں نے دس لاکھ ٹن کی جگہ 11 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اور سبسڈی دینے کا اختیار صوبوں کے حوالے کر دیا۔ اسد عمر نے کمیشن کو بتایا کہ ڈالرز کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے انہوں نے برآمد کی اجازت دی لیکن کمیشن کے اس سوال پر کہ ڈالرز کی ضرورت تو اس سے ایک ماہ قبل بھی تھی، ایک ماہ میں کیا تبدیل ہوا جس کی بنیاد پر انہوں نے سبسڈی دینے کا فیصلہ کر لیا، رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسد عمر کمیشن کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔

رزاق داؤد

وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ملک میں چینی کی کم پیداوار کے باوجود انہوں نے برآمد کی اجازت کے حق میں رائے کیوں دی تو انہوں نے بھی ڈالرز کی ضرورت والی دلیل ہی دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ڈالرز کی اشد ضرورت تھی اور چین نے چینی کو بھی ان مصنوعات میں شامل کر رکھا تھا جو وہ پاکستان سے درآمد کرنے کے لئے تیار تھا۔ تاہم، یہ دلیل بھی کمیشن نے ناکافی سمجھی ہے کیونکہ پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں اضافے اور شدید قلت کے باوجود یہ برآمدات جاری رکھی گئیں۔ مزید یہ کہ چین کے ساتھ تو یہ تجارت معاہدے کا حصہ تھی لیکن افغانستان جو چینی بھجوائی گئی، اس کے لئے ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں تھا۔

عثمان بزدار

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وہ تیسرے شخص ہیں جو کمیشن کے سوالوں کے شافی جواب دینے میں ناکام رہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ کمیشن کے سامنے پیش ہونے پر ابتدا میں تو عثمان بزدار نے کہا کہ انہیں یاد ہی نہیں کہ انہوں نے یہ سبسڈی کب دی۔ جب انہیں اجلاس کے minutes دکھائے گئے تو انہیں یقین آیا۔ یاد رہے کہ عثمان بزدار ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دراصل سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہ فیصلہ اسد عمر نے صوبوں پر چھوڑا تھا کہ وہ سبسڈی دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ گو کہ رپورٹ میں اسد عمر سے متعلق بھی لکھا گیا ہے کہ وہ کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے کہ یہ فیصلہ انہیں کرنا چاہیے تھا لیکن دراصل یہ فیصلہ حتمی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب پر چھوڑا گیا تھا اور ان کے دستخط سے ہی یہ سبسڈی منظور کی گئی۔

رپورٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

رپورٹ کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ اس کی بنیاد پر حکومتی ادارے اب اس میں اٹھائے گئے سوالات پر تحقیقات کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ قانونی طور پر حتمی نہیں اور اس کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔

قانونی ماہرین رپورٹ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

قانونی ماہرین کے مطابق یہ رپورٹ اصل ذمہ داروں کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس رپورٹ میں پوری کی پوری چینی کی انڈسٹری کو کرپٹ قرار دیا گیا ہے، اور ان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سے لوگ شامل ہیں۔ لیکن آخری فیصلہ یہ حکومت ہی کا تھا کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے اور اس پر سبسڈی بھی دی جائے۔ اگر چینی مل مالکان نے حکومت پر دباؤ ڈالا تو یہ دباؤ کس نوعیت کا تھا، اس میں کون کون شامل تھا اور جو حکومتی وزرا اس دباؤ کو قبول کر کے ان کی بات ماننے پر تیار ہوئے، انہوں نے دباؤ کیوں قبول کیا۔ اگر تو حکومت چاہتی ہے کہ تمام چینی مل مالکان کو جیلوں میں ڈال کر اس صنعت کو قومیا لیا جائے تو یہ علیحدہ بات ہے لیکن جتنے بڑے بڑے نام اس سکینڈل میں شامل ہیں، ایسا ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ رپورٹ میں جس طرح پوری انڈسٹری کو چارج شیٹ کر دیا گیا ہے، حکومت اس سے سیاسی مقاصد کے علاوہ کیا حاصل کرے گی، یہ کہنا فی الحال انتہائی مشکل ہے۔