عمران خان کے متبادل کی تلاش شروع 

ملکی حالات تو موجودہ حکومت کے وجود میں آتے ہی خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پہلے تین ماہ حیرانی میں گزر گئے۔ وہ مسلم لیگ نواز ہو، مولانا فضل الرحمان ہوں یا حکمران جماعت۔ اگلے چھ ماہ پریشانی اور فکر کی نذر ہو گئے ہیں۔

زرداری فیملی کو دولت جانے کی پریشانی اور اقتدار کھونے کی فکر جب کہ شریف خاندان کی بھی ایسی ہی پریشانیاں اور فکریں لاحق ہیں جن میں صحت کے معاملات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ میڈیا اور مولانا صاحب کی پریشانی اور فکر کی نوعیت ذاتی نہیں لیکن وجوہات وہی ہیں۔ خود عمران خان کو ملکی معیشت اور اپنے دعوئوں کی پریشانی اور گھر میں لڑائی اور اقتدار کے کھونے کی فکر نے چھ ماہ سے گھیر رکھا ہے۔

ایک طرف جہاں عمران خان کی ساری ٹیم کو ناکام اور نا اہل ثابت کرنے کے لیے مولوی، ملک، زرداری اور شریف اتحاد نے میڈیا میں دولت اور امید کا نیا اور بھر پور انجیکشن لگایا ہے تو دوسری طرف پنڈی سرکار بھی پریشان ہو چکی ہے اور متبادل کی تلاش کا عمل ہر سطح پر جاری ہے۔



ہمارے وزیر خارجہ نے تو سات اپریل کو ممکنہ بھارتی جارحیت کے خطرے کا اظہار کر دیا تھا اور اس کی نوعیت، دورانیہ اور شدت پر تبصرہ کیے بغیر اسے بھارتی انتخابات سے جوڑتے ہوئے 16 سے 20 اپریل تک کی تاریخ بھی دے ڈالی۔ اللہ اللہ کر کے اب وہ وقت بھی گزر گیا ہے۔ معلوم نہیں، خطرہ ٹل گیا ہے یا نہیں؟

شاہ صاحب کو چاہئے کہ بے شک وہ اسلام آباد نہ جائیں لیکن ملتان سے ہی اس پر اپنے خیالات کا اظہار کر دیں۔ اگلی تاریخ دے دیں ورنہ بیرونی خطرہ ٹلنے کی نوید سنا دیں اور عوام کو اس غیر یقینی صورت حال سے باہر نکالیں۔ جب سے شاہ صاحب نے قوم کو اس خطرے سے آگاہ کیا ہے، بیرونی حملہ تو نہیں ہوا لیکن اندرونی واقعات نے شاہ صاحب کی بات اور شخصیت کی سچائی کو ایک بار پھر عوام کی عدالت میں ثابت کر دیا ہے۔ گدی نشین ہمیشہ دوراندیش ہوتے ہیں۔



بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے اور اب تک کی ہلاکتوں کی تعداد پلوامہ حملوں کے تقریباً برابر ہو چکی ہیں۔  فوجی چن چن کر شہید کر دیے گئے۔ حساب برابر ہوا ہے کہ نہیں، صرف ’’مودی جی‘‘ جانتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان ایران کے صدر سے پوچھنے گئے ہیں کہ اگر انہیں پتہ نہیں تو مودی جی سے فون پر پوچھ کر بتا دیں۔ ہمارے وزیر اعظم کا تو مودی جی فون بھی نہیں اٹھاتے۔

اس عرصے کا دوسرا اہم واقعہ دوحہ میں طالبان سے امریکی مذاکرات میں تعطل ہے، امریکہ نے پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست سے نکال دیا ہے جو اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ شاباش شاہ صاحب. یہ آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، اب اگلا ہدف ایف اے ٹی ایف ہونا چاہئے، اس دوران آئی ایم ایف پاکستان کی جیبوں کی تلاشی سے لے کر انڈرویئر اور بنیان کی تفصیل تک اگر مانگ لے تو کوئی حرج نہیں۔ عوام کی نظر سوٹ پر ہے یا  شیروانی اور شلوار قمیص پر۔ اندر کی بات تو آج تک عوام کو ستر سال میں پتہ نہیں لگی، یہ کوئی بڑی بات نہیں۔

تیسرے بڑے واقعے کا تعلق ہماری عدلیہ سے ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے ناصرف چھٹی والے دن خاص اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو تہہ خانے سے نکالا بلکہ شہباز شریف کو لندن جانے کی اجازت بھی دے دی جب کہ حنیف عباسی کو بھی جیل سے نجات دلائی۔



ظاہر ہے جب نواز شریف کے ذہنی دبائو کو وجہ بنا کر چھ ہفتوں کی قابل توسیع چھٹی دی جا سکتی ہے تو لاہور ہائی کورٹ سے کیسا شکوہ؟  اب تو سندھ ہائی کورٹ سے بھی گلہ شکوہ جائز نہیں۔

امیر کے لیے انصاف کی فراہمی مرکز اور تمام صوبوں میں تیزی سے جاری ہے، جوں ہی زرداری اور دوسرے شریف اور ملک خاندانوں کو انصاف کی فراہمی ان کی دہلیز پر مکمل ہو جاتی ہے تو غریب کو بھی مقدمے کی تاریخ دے دی جائے گی، امید ہے کہ اس وقت وکلا ہڑتال نہیں کریں گے۔

داخلی طور پر سب سے بڑا اور اہم واقعہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے اوپننگ بلے باذ اسد عمر آئوٹ ہو چکے ہیں اور موقع محل دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے پوری ٹیم کا ہی بیٹنگ آرڈر بدل دیا ہے۔

گھبراہٹ میں وزیر اعظم نے مشیر خزانہ کے لیے حفیظ شیخ، اطلاعات و نشریات کے لیے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے علاوہ پیٹرولیم اور صحت کے لیے بھی نئے چہرے متعارف کروائے ہیں۔ عمران خان یہ پیمانہ اپنے اوپر کب لاگو کریں گے؟ اس کا فیصلہ رمضان کے بعد کیا جائے گا۔

ایک اور اوپنگ بیٹسمین یعنی شاہ صاحب نے ایک دوسرے بلے باز کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے اور میدان کھلا چھوڑ کر ملتان چلے گئے ہیں۔ ان کی ناراضی جائز ہے۔ عمران حکومت کی ان ناکامیوں کے بھنور میں وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی کارکردگی مثالی جا رہی ہے اور کامیابیاں شاہ صاحب کے قدم چوم رہی ہیں جب کہ پرویز خٹک نے خلائی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ وہ موجود ہیں مگر نظر نہیں آتے۔



وزیر اعظم عمران خان ایران کے دورے پر ہیں جہاں وزارت سکیورٹی کے سربراہ کھٹرے نظر آئے اور شیری مزاری شاید سفارت کاری اور انسانی حقوق دونوں کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

خان صاحب کو بھل صفائی کی نہیں صرف گھر صفائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بیڈ روم سے نکلی چیز کیا بیٹھک یا برآمدے میں پہنچ جائے گی؟ اگر یہ اصول بنی گالہ میں لاگو نہیں کیا جاتا تو ریڈ زون میں کیوں؟ اگر وزیراعظم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ممکنہ تبدیلی کو آخری چانس سے جوڑ دیا اور پھر چند ماہ بعد اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا تو پھر اگلی باری شاید خود ان کی اپنی ہی ہو گی کیوں کہ وقت کا تعین وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔