پاکستان میں لاہور اور بھارت میں نئی دہلی کو بہن شہر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان میں بہت سی چیزیں مثال کے طور کھانے پینے کی اشیاء اور ثقافت مشترک ہیں ۔لیکن اب ان دونوں شہروں کے درمیان ایک اور چیز مشترک ہو گئی ہے اور وہ ہے فضائی آلودگی جو ان دونوں شہروں پر زیادہ تر موسم سرما کے مہینوں میں چھائی رہتی ہے۔ نئی دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ حالیہ برسوں میں لاہور بھی تیزی سے اس فہرست میں اوپر کی جانب گیا ہے اور کبھی کبھی یہ اس فہرست میں نئی دہلی سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔
دونوں شہروں کے بچوں کو فضائی آلودگی کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ نئی دہلی میں، نومبر 2022 میں اسکولوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ فضائی آلودگی “خطرناک” سطح پر پہنچ گئی تھی۔ دسمبر میں لاہور نے بھی نئی دہلی کی طرح اسکول جانے والے بچوں کی موسم سرما کی تعطیلات میں توسیع کر دی تا کہ وہ بچے جن کے پھیپھڑے ابھی نشوونما پا رہے ہیں، محفوظ رہیں۔
اِمراہ اور سارہ سرفراز، 15 اور 17 سالہ بہنیں، لاہور کے جیسس اینڈ میری کانوینٹ اسکول میں پڑھتی ہیں۔ اسکول بند ہونے سے دونوں کو کچھ راحت ملی۔ فیس ماسک اب کووِڈ 19 سے بچانے کے لئے نہیں بلکہ فضائی آلودگی سے بچنے کے لئے پہنا جا رہا ہے۔ چہرے کا ماسک پہنے ہوئے اِمراہ نے تھرڈ پول کو بتایا: “مجھے فلو (نزلہ، بخار) تھا جبکہ میری بڑی بہن کو جلد کی الرجی تھی۔ اسموگ کی وجہ سے ہمیں سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ گلے میں درد ہوتا ہے۔” اس کے دو دوستوں کے لئے صورتحال اور بھی مشکل ہے، جو پہلے ہی دمے کے مرض میں مبتلا ہیں۔
لاہور میں فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والےاہم مسائل پر توجہ نہیں دی گئی
اسکولوں کو بند کرنا ان اقدامات میں سے صرف ایک ہے جو حکام نے دونوں شہروں میں اٹھائے ہیں۔ جب سے لاہور ہائی کورٹ نے پاکستانی حکومت کو 2015 میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر اپنے قوانین پر عمل درآمد کا حکم دیا ہے ، اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے مسلسل عدالتی دباؤ ہے۔ ہائی کورٹ کے جج سال بھر ہر جمعہ کو ملاقات کرتے ہیں اور اس بات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں کہ فضائی آلودگی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے پنجاب کے ادارہ برائے تحفّظ ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل خواجہ محمد سکندر ذیشان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس سال، “ہم نے پہلی بار ایک جدید ترین ڈیٹا اکٹھا کرنے کا مرکز قائم کیا ہے، جسے اسموگ پیدا کرنے والے ذرائع کی نشاندہی کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس مرکز کے دیگر کاموں میں عوامی شکایات کا جواب دینا، روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس بنانا اور پھر اس کے مطابق ضروری کارروائی کرنا شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف لاہور میں کچرا جلانے پر افراد یا صنعتی یونٹس کے خلاف 6,457 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان کے محکمے نے پانچ خصوصی ‘اینٹی سموگ اسکواڈز’ بھی شروع کیے، جو باقاعدگی سے فیلڈ کا دورہ کرتے ہیں اور کچرا جلانے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف موقع پر قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “ان اسکواڈز نے اکتوبر سے آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فصل کا بھوسہ اور کچرا جلانے والوں پر جرمانے عائد کیے ہیں۔” کسانوں کے خلاف پینتالیس لاکھ روپے (تقریباً 19،800 امریکی ڈالر) کے جرمانے عائد کیے گئے ہیں،” انہوں نے مزید کہا کہ جرمانے پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنا ہو گئے ہیں۔
ماہر ماحولیات اور وکیل احمد رافع عالم کا خیال ہے کہ یہ کوششیں بہت کم ہیں اور بہت دیر شروع کی گئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہر سال ہم اینٹوں کے بھٹوں اور چھوٹی صنعتوں کو بند کر دیتے ہیں اور صرف اسموگ کےاہم مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف ڈیٹا سینٹر قائم کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔”
پاکستان میں فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ گاڑیوں، صنعتوں اور ریفائنریوں میں استعمال ہونے والا غیر معیاری پیٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل ہے۔ پاکستانی گاڑیوں کے لئے گاڑیوں کے اخراج کے معیارات اب بھی یورو 2 کی سطح پر ہیں۔ یورو 6 کے معیارات کے برعکس پاکستان میں نتیجے کے طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ ،نہایت باریک مادی ذرّات اور دیگر اخراج زیادہ ہوتا ہےجبکہ بھارت یورو 6 کے نفاذ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عالم نے گاڑیوں کے مالکان اور پاور پلانٹس کے لئے فرنس آئل اور کوئلہ استعمال کرنے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ یہ امیر اور بااثر افراد ہیں۔ فرنس آئل استعمال کرنے والی ریفائنریوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹ کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے؟
وسیع منصوبہ بندی اور بڑی رقم لگانے کے باوجود نئی دہلی میں بہت محدود بہتری
یا
سرحد کے اُس پار، نئی دہلی میں جب کہ گاڑیوں کے اخراج کو ایک اعلیٰ معیار پر مقرر کیا جا سکتا ہے، ہوا پہلے کی طرح آلودہ ہے، باوجوداس کے کہ 2019 میں بھارتی حکومت کی طرف سے نیشنل کلین ایئر پروگرام (NACP ) شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر اس اسکیم کے لئے ایک ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق 2024 تک بھارت کے 122 شہروں میں ہوا کو آلودہ کرنے والے مادّوں 10PM اور 2.5 PM (نہایت باریک مادّی ذرہ جو 2.5 مائیکرون یا اس سے کم قطر کا ہے اور براہ راست خون میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے) کو 20 سے 30 فیصد تک کم کر دیا جائے گا۔ اس کے لئے 2017 میں آلودگی کی سطح کو بیس لائن کے طور پر استعمال کیا جانا تھا۔ ستمبر 2022 میں اس ہدف پر نظر ثانی کی گئی۔ اب 2026 تک ان ذرات کے ارتکاز کو 40 فیصد تک کم کرنا ہے۔
لیکن سچ یہ ہے کہ چار سال بعد، اور 6.9 ارب بھارتی روپے ( 83 امریکی ڈالر) خرچ کرنے کے بعد، ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے نمٹنے میں نئی دہلی کی پیش رفت سُست رہی ہے۔آرتی کھوسلہ، جو کہ کلائمیٹ ٹرینڈز ، ایک تنظیم جو NCAPٹریکر (ایک آن لائن ذریعہ جو اس بات کا پتہ لگاتا ہے کہ فضائی آلودگی کی کوششوں کو کس طرح لاگو کیا جا رہا ہے) کی ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران دہلی کی ہوا کے معیار میں معمولی بہتری آئی ہے۔ NCAP ٹریکر کا یہ کام ٹیک اسٹارٹ اپ ریسپائرر لیونگ سائنسز کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی میں فضائی آلودگی پر بھارتی وزارت ماحولیات کے ٹریکر میں 5 PM 2.کا ذکر نہیں ہے، اس میں صرف کم خطرناک PM10 کی سطح کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں بمشکل 10 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
کھوسلہ کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ کثافت اور مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی والے شہر کے لئے صرف بنیادی پالیسی تبدیلیاں ہی ہوا کے معیار کے حوالے سے کچھ فوائد لا سکتی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دیگر ممالک نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لئے سائنس پر مبنی پالیسیوں کو اچھی طرح سے نافذ کیا، ان کی سیاسی وابستگی اور عزم بہت بلند رہا، اور اُنہوں نےپالیسیوں پر عمل نہ کرنے والوں پر بھاری جرمانے کئے۔ بلاشبہ اِن اقدامات کا فائدہ اِن ممالک کو ملا ہے۔ اگر ہمیں دہلی کے آسمان کو تیزی سے صاف کرنا ہے تو ہمیں اسی طرح کے ماڈل کو لاگو کرنا ہوگا۔
غفران بیگ سسٹم آف ایئر کوالٹی اینڈ ویدر فورکاسٹنگ اینڈ ریسرچ (SAFAR) کے بانی ہیں (جو کہ بھارت کی منسٹری آف ارتھ سائنس کے تحت ہوا کےمعیار کی نگرانی کرنے کا ایک نظام ہے) نے کہا کہ نئی دہلی میں فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں سے آلودگی کا اخراج ہے۔ بیگ نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 2020 میں کل فضائی آلودگی میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کا حصہ تقریباً 38 سے 40 فیصد رہا ۔ اور جب سے گاڑیوں سےآلودگی کے اخراج کی بات کی جارہی ہے تو رجحان غلط سمت میں جا رہا ہے۔
بیگ بتاتے ہیں کہ دہلی میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گزشتہ دہائی میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ بائیو فیول کا اخراج، جو بنیادی طور پر رہائشی اخراج ہے، میں 46 فیصد کمی آئی ہے۔ لیکن ٹرانسپورٹ سیکٹر کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اس 46 فیصد کمی سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ مجموعی طور پر، گزشتہ ایک دہائی کے دوران، اخراج میں تقریباً 12 سے 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ (گاڑیوں کا اخراج) آلودگی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
بھو سہ جلانا ضروری اور غیر ضروری توجہ حاصل کرتا ہے
یا
بھوسہ جلانے کا مطلب ہے کہ فصل کی کٹائی کے بعد اُس کی باقیات کو جلا دیا جائے۔ اگلے موسم کی فصل لگانے سے پہلے کھیت کی باقیات کو صاف کرنے کا یہ ایک سستا طریقہ ہے، پر اِسے جلانے کی بات فضائی آلودگی کی بحث پر حاوی ہے۔
بیگ کا کہنا ہے کہ سردیوں میں دہلی میں تقریباً 20 سے 25 فیصد ہوائی آلودگی باہر سے آتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بھوسے کوجلانا ہے۔ دہلی کی ہوا کو آلودہ کرنے والے یہ مادّی ذرّات شمال مغربی علاقے سے دہلی کی طرف آتے ہیں، جو اکتوبر اور نومبر کے دوران ہوا کے معیار کو مزید خراب کردیتے ہیں۔
نئی دہلی میں قائم ایک تھنک ٹینک – توانائی، ماحولیات اور پانی کی کونسل (CEEW) کے پروگرام ایسوسی ایٹ ایل ایس کرنجی نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ “فصل کے بھو سے کو جلانا فضائی آلودگی میں موسمی معاون ہے۔ دہلی یا پنجاب کی ہوا کے معیار میں اس کا حصہ 15 سے 20 دن ہے۔ یہ صورت حال عام طور پر فصل کی کٹائی کے وقت، اکتوبر کے آخر اور نومبر کے وسط کے درمیان پیدا ہوتی ہے۔” لیکن چونکہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ موافق ہے، جیسے ہوا کی سمت میں تبدیلی اور درجہ حرارت میں کمی، اس لئے اس مدت کے دوران فضائی آلودگی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔
جہاں پر بھوسہ جلایا جاتا ہے اس کی مخصوص جغرافیائی شناخت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ نومبر 2022 کی (ECCW) کی رپورٹ کے مطابق ، [بھارتی] پنجاب کے علاقے مالوا میں خریف سیزن کے بعد ریاست میں بھوسہ جلانے کے سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں۔ فی الحال، یہ 2022 میں 40 ہزار سے زائد کھیتوں میں بھوسہ جلا کر لگانے والی آگ میں سے 80 فیصد سے زیادہ کا حصہ ہے۔ اس کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ تبدیلی بھی جلدی ہو سکتی ہے۔ CEEW کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ اِس بھارتی ریاست میں ” فصل کی باقیات کو اُس کی اپنی اصلی جگہ پر ٹھکانے لگانےکے انتظام کے نفاذ میں نمایاں اضافہ” دیکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ بھوسے کو جلائے بغیر اِس کا کوئی بہتر انتظام کیا جاتا ہے۔
بھارتی پنجاب کےآلودگی کنٹرول بورڈ ے چیف ماحولیاتی انجینئر، کرونیش گرگ کے مطابق، پچھلے سال کے مقابلے میں 2022 میں پنجاب میں آگ لگنے کے 30 فیصد کم واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پنجاب میں بھوسہ جلانے کا عمل دہلی کی فضائی آلودگی میں صرف 5 فیصدسے 10 فیصد تک کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ باقی آلودگی دہلی میں ہی پیدا ہوتی ہے۔
سرحد پار الزام تراشی کا کھیل
بھارت میں بھوسہ جلانے کے واقعات، جو مصنوعی سیّارچے سے لی گئی تصاویر میں نظر آتے ہیں، نے کچھ پاکستانی سیاست دانوں کو یہ دعویٰ کرنے پر اُکسایا ہے کہ لاہور کی فضائی آلودگی کابحران زیادہ تر بھارت میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے ہے۔
https://twitter.com/zartajgulwazir/status/1190137425642819585?s=20
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستانی حکام نے کبھی یہ معاملہ بھارتی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے، پاکستانی پنجاب کے محکمہ ماحولیات کے ذیشان نے کہا کہ یہ دفتر خارجہ سے متعلق معاملہ تھا۔ اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے یہ معاملہ بھارتی دفتر خارجہ کے ساتھ اٹھایا ہوگا۔
ٹی سی اے راگھاوان، جنہوں نے 2013 اور 2015 کے درمیان پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں، نے دی تھرڈ پول کو بتایاکہ “سرحد پار فضائی آلودگی کے حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات ہو سکتے ہیں، لیکن کم از کم میری معلومات کے مطابق، حکومتی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان اس معاملے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ بھارت اور پاکستان میں غیر سرکاری سطح کے ماہرین کے درمیان بھی اس پر کوئی بڑی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
دی تھرڈ پول نے پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان سے رابطہ کیا، لیکن وہ اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لئے دستیاب نہیں تھیں اور پاکستان کی وزارت خارجہ نے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ تاہم، بھارت میں تعینات ایک پاکستانی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں کشمیر کے بھارت کے زیرِ انتظام حصّےمیں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ ویسے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان شاید ہی کسی معاملے پر بات ہوتی ہو۔ جہاں تک فصلوں کا بھوسہ جلانے کا تعلق ہے، یہ ایک معمولی مسئلہ ہونے کی وجہ سے مشکل سے ہی اٹھایا گیا ہوگا۔
لیکن ‘ دی گریٹ اسموگ آف انڈیا ‘کے مصنف سدھارتھ سنگھ نے زور دیا کہ بھارت اور پاکستان میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے سرحد پار تعاون کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ہوائیں کوئی سیاسی سرحدیں نہیں جانتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تجزیہ ایک خاص جغرافیہ کے پورے ائیر شیڈ کے تناظر میں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا مشرقی حصہ، خاص طور پر پنجاب کا خطہ، اور مغربی اور وسطی گنگا کے میدانی علاقے سب ایک ہی ایئرشیڈ کا حصہ ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ایئر شیڈ کا صرف ایک حصہ صاف ہو جائے تو باقی حصے بھی صاف ہو جائیں۔ اس لئے پورے ایئر شیڈ کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ درحقیقت، یہ [ایئرشیڈ جس میں سردیوں کے دوران ہوا کو آلودہ کرنےوالے ذرّات شامل ہو جاتے ہیں] بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر آپ اس خطے میں ہوا کو صاف کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بنیادی طور پر پیرس معاہدے کے ایک مخصوص نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام فضائی آلودگی کے لئے کرنا ہے جس کا عالمی ہونا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا، کم از کم، اس معاملے میں اِس معاہدے کو اِن تینوں ممالک کو اپنے اپنے علاقوں میں ہوا کو آلودہ کرنے والے ذرّات کے مقامی ذرائع کی نشاندہی کرنے اور ان سے نمٹنے کی خا طرضروری اقدامات کرنے کے لئے اکٹھا کرنا چاہیے۔
ڈائیلاگ ارتھ ایک کثیرالزبان پلیٹ فارم ہے جو ہمالیہ کے آبی بہاؤ اور وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے طاس کے بارے میں معلومات اور گفتگو کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے.