’’میں ماہرِ امراضِ دل نہیں ہوں۔ دل کے امراض کی ٹیم نے ان کا معائنہ کیا اور وہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جو دوائیں دل کے مرض میں یا ہارٹ اٹیک کی صورت میں استعمال ہوتی ہیں، وہ پلیٹلٹس کی غیر موجودگی میں نہیں دے سکتے۔ تو اس وقت ہم انہیں سوائے آکسیجن دینے کے کچھ نہیں کر سکتے تھے اور کیونکہ مریض کو دل میں درد ہو رہا تھا تو ان کو درد کے لئے دوا دے رہے تھے اور درد کی دوا میں بھی مشکل یہ ہے کہ درد کی دوائیں پلیٹلٹ بننے کے عمل کو روک دیتی ہیں۔ جب کہ پلیٹلٹس ہیں ہی نہیں کیونکہ 2000 کا مطلب ہے پلیٹلٹس نہیں ہیں۔ لہٰذا اس وقت سوائے آکسیجن لگانے کے اور پیراسیٹامول دینے کے ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے‘‘۔
سما ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں مریض کے بچنے کے امکانات پانچ فیصد سے بھی کم تھے۔ دل کے درد کی موجودگی میں پلیٹلٹس بڑھانے کی دوائیں شروع کرنا بہت بڑا خطرہ تھا۔
’’کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی پلیٹلٹس کی صورتحال بہتر ہوتی چلی گئی۔ جس وقت وہ گھر پر شفٹ ہوئے اس وقت تک پلیٹلٹس اس سطح پر آ چکے تھے کہ وہ جا سکیں‘‘۔
ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کا کہنا تھا کہ جب حکومت نے میاں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تب تک ان کے پلیٹلٹس 79 ہزار تک پہنچ چکے تھے اور اتنے پلیٹلٹس کی صورت میں سفر کرنا ممکن ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی ہوتی ہے جب وہ ایسے لوگوں کو ٹی وی پر بیٹھ کر بات کرتا دیکھتے ہیں جن کو مرض اور مریض کے متعلق کچھ نہیں پتہ ہوتا، اور ایسے ایسے فلسفے پیش کر رہے ہوتے ہیں، ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ سوائے شرمندگی کے اور کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر شمسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی مریض کی میڈیکل رپورٹس سے متعلق ٹی وی پر بات چیت نہیں ہونی چاہیے، اور نہ ہی اس کی اجازت ہوتی ہے۔ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کی میڈیکل رپورٹس ٹی وی پر زیرِ بحث آئیں؟ اگر نہیں، تو پھر ہم کچھ مخصوص مریضوں کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اکتوبر 2019 میں اچانک شدید بیماری کی حالت میں نیب جیل سے سروسز اسپتال لائے گئے تھے اور چند روز بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ آج کل وہ لندن میں زیرِ علاج ہیں اور چند روز قبل ان کی ایک ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے تصاویر بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھیں جس کے بعد کچھ حکومتی وزرا کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ اگر وہ واقعی بیمار ہیں تو ریستوران میں کھانے کھاتے کیوں پھر رہے ہیں۔