ویسے اگر دیکھا جائے تو پوری مسلم دنیا میں اپنے معاشی استعداد سے بڑی فوجیں دو ریاستوں کے پاس ہے ، مصر اور پاکستان، اور خیر سے دونوں ممالک نہ اپنے وسائل سے اتنی بڑی فوجیں کھڑی کرسکتے تھے اور نہ پال سکتے ہیں۔ دونوں فوجی اسٹیبلیشمنٹ کو ریاست اور اس کے عوام کے قیمت پر سیاسی انجینئرنگ میں ید ِطولا حاصل ہے جس کی ہر قسط ان ملکوں کو مزید نئے گڑھوں میں دھکیلتی جاتی ہے۔ ان کی نظریں اپنے ملک کے مسائل سے زیادہ بین الاقوامی تنازعات اور اس میں لگنے والی دیہاڑی پر ہوتی ہیں۔ اس لئے پرامن طریقوں سے دولت پیدا کرنے کے ذرائع لگانا نہ ان کی ترجیح ہے اور نہ مہارت ۔ کیونکہ محنت سے دولت پیدا کرنے کیلئے انسانی وسائل کو ترقی دینا ، صنعتیں لگانا اور اس کی پیداوار کو بیچنے کیلئے مارکٹیں ڈھونڈنا ہوتے ہیں۔ اس ماڈل کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے سیاسی و سماجی استحکام، قومی وسائل کے بڑے حصے کو پیداواری اور فلاحی مد کیلئے مختص کرنا ہوتا ہے۔اور قومی اتفاقِ رائے اور پارلیمان کی بالا دستی کے بغیر پاکستان جیسی مختلف النوع ریاست میں ممکن ہی نہیں ہے۔ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے سردست آزادانہ سیاست اور جمہوری فضا ضروری ہوتی ہے ۔ لیکن اس صورت میں اقتدار غیر جمہوری طاقتوں کے ہاتھوں سے عوام کے حقیقی نمائندوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوگا جو قوم کی تنخواہ پر سیاست کرتے ہوئے آفیسرز اور جرنیلوں کو قبول نہیں ہے۔
اگر دیکھا جائے تو مصر اور پاکستان دونوں کے فوجیں اپنی چادر کے مطابق نہیں بلکہ اس کی تشکیل و ترتیب کا انحصار بین الاقوامی طاقتوں کی سٹریٹیجک ضروریات ، مفادات اور حالات پر تھااور اس لئے اپنی قومی پیداوار اور ضروریات کے بر عکس اس کی تعداد و ضروریات کا انحصار بیرونی وسائل اور امداد پر تھا اور ہے ۔ اس کے علاوہ اس ماڈل کو برقرار رہے رکھنے کیلئے ان کو اپنی ریاستوں کے اقتدار اعلی اپنے ہاتھوں میں رکھنے کیلئے سیاست اور معیشت پر کنٹرول رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس لئے ملک کے معاشی حالات کے برعکس فوج کی تعداد اور اخراجات کم کرنے کے بجائے ہر حال میں بڑھانا پڑا، لیکن دہائیوں سے جاری سیاست اور اقتدار پر غلبے نے فوج کے محکمہ میں یہ ذہنیت بھی پیدا کی کہ اقتدار پر کنٹرول نہ صرف اس کا استحقاق ہے بلکہ ایسا کر نا ریاست کی بقا کیلئے ناگزیر ہےاور یوں غیر روایتی لیکن گھمبیر سلامتی کے خطرات کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا جس میں کمزور معیشت اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی شامل ہیں۔ ایسی ذہنیت اور اس کے تشکیل کردہ ڈھانچے حکمرانی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جمود کا سبب بن گئے۔ اس ڈھانچے کے پیدا کردہ دیگر غیر فطری سیاسی عناصر کے علاوہ ایک عنصر اقتصادی بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے معاشیات کی بنیادی تعریف 'محدود وسائل یا ذرائع کومتنوع استعمال میں لانا' تک بدل ڈالا۔ اس ماڈل میں محدود وسائل کا ایک غیر پیداواری سیکٹر یعنی دفاع میں غیر متوازن اور بے دریغ استعمال ہے۔ اس ماڈل کو تبدیل کئے بغیر مصر اور پاکستان کی معاشی صحت درست کرکے پیداواری بنانا دنیا کے ذہین ترین انسان تو کیا فرشتے بھی نہیں کرسکتے۔ لہذا اس ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ایسی معیشتوں کو ٹھیک کرکے پیداواری بنانا عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ٹیکنوکریٹس کو وزیر و مشیر بنانے سے ممکن ہے اور نہ آکسفورڈ اور ہاورڈ سے فارغ التحصیل ماہرِ اقتصادیات کے بس کی بات ہے۔
حالیہ مثال سری لنکا ہے۔ گزشتہ ہفتہ، 13 جنوری کو سری لنکا کے دفاع کے جونئیر وزیر نے اعلان کیا کہ وہ 2024 تک سری لنکا کی موجودہ تقریباً دو لاکھ فوج میں ایک تہائی کمی کرکے اس تعداد کو ایک لاکھ پینتیس اور بتدریج 2030 تک اس کے تعداد کو آدھا کرکے ایک لاکھ کے سطح پر لائیں گے۔ باوجود اس کے کہ 2009 میں سری لنکن افواج نے تامل ٹائیگرز علیحدگی پسندوں کو مکمل شکست دےکر شاندار فتح حاصل کی تھی۔ اگر یہ کارنامہ ہمارے ملک میں ہوجاتا جس میں حقیقی علیحدگی پسندوں اور دہشتگردوں کو اس طرح شکست ہوتی تو شاید اب ہمارے آئین میں یہ جلی حروف سے لکھا ہوتا کہ جب تک پاکستان اس کرہ ارضی پر موجود ہے تب تک آرمی چیف اس کا حکمران ہوگا۔ لیکن مصر اور پاکستان کی اقتصادی، مہنگائی اور غربت کی دگرگوں صورتحال کے پیشِ نظر بھی ایسا کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے اس کے بارے میں بات کرنا بھی پہاڑ سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔لیکن شاید سری لنکا کے جرنیلوں میں سیاسی انجینئرزنہیں ہیں کہ پراجیکٹ عمران بناکر ہر حال میں ریاست کی قیمت پر اپنا سیاسی تسلط رکھنا چاہتے ہیں اور سیاستدانوں نے یہ سمجھا کہ ریاست ہے تو فوج ہوگی۔ اس لئے اتنا اہم اور جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ حالانکہ سری لنکا اپنے قومی بجٹ کا جتنا حصہ فوج یا دفاع پر خرچ کرتی ہے پاکستان کا تناسب حقیقت میں اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
مصر کا تو پھر بھی کچھ نہ کچھ مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے حوالے سے بین الاقوامی طاقتوں کیلئے اس کی سٹریٹیجیک اہمیت باقی ہے ۔ مگر 11/9 کے بعد امریکہ کا خود افغانستان آنا اور وہاں تقریباً بیس سال گزارنے کے بعد حکومت بمعہ جدید اسلحہ طالبان کے ہاتھوں میں دیکر نکلنے کے بعد شاید اس سے پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت میں تبدیلی آئی ہے۔ شاید اس لئے ہمارے جی ایچ کیو کے تربیت یافتہ دانشور، صحافی اور دفاعی تجزیہ نگار پچھلے کچھ سالوں سے سٹریٹیجیک اہمیت کا راگ ماضی کے طرح دن رات نہیں الاپتے۔
اب پاکستان واقعی اپنی تاریخ کے نازک موڑ سے نہیں گزر رہا بلکہ ایک خطرناک موڑ میں پھنسا ہوا نظر آرہا ہے۔ جہاں سے کوئی روایتی سیاسی اور اقتصادی انجینئرنگ اس کو نہیں نکال سکتی۔ نہ طویل یا درمیانی مدت کے ٹیکنوکریٹس سیٹ اپ کے بس کی بات ہے نہ بجلی ، گیس ، پٹرول اور دیگر اشیا ضرورت کے قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے یہ طوفان تھمنے والا ہے۔ بلکہ آؤٹ آف باکس کچھ سوچنا اور کرنا پڑے گا ۔ اگر ریاست کو بچانا ہے تو پوری ریاست کو گیریژن بنانے کی بجائے ریاست میں اس کی ضرورت کے مطابق گیریژن ہونے چاہئے جس کے باگ ڈور پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہو ۔ سردست اگر ہم سری لنکا کی طرح اقدام کریں تو فوری طور پر کافی معاشی مشکلات اور ضروریات کو رفع کر سکتے ہیں۔