عالمی آفات، مذہبی معاشرہ،اور انسانیت: ایک مکالمہ

عالمی آفات، مذہبی معاشرہ،اور انسانیت: ایک مکالمہ
شاگرد: سر آفات میں مذہب کا کیا کردار ہے؟ اس معاملہ میں کوئی معقول بات بتائیں۔

استاد: بیٹا آپ نے معقول کے لفظ کا اضافہ کر کے مذہب کے ذاتی احساسات اور تجربات کو مشترکہ انسانی معمالات سے الگ کر دیا ہے کہ سب انسانوں کے درمیان عقل قدر مشترک ہے نہ کہ اپنے اپنے مخصوص مذہبی عقائد

شاگرد: جی بالکل یہی مقصد تھا کہ کس طرح قدر عالمی آفات میں قدر مشترک سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟

استاد: یہ حقیقیت ہے کہ دنیا کی اکثر آباد مذہبی معاشروں میں بٹی ہوئی ہے اور انہیں مذہبی رہنما کنٹرول کرتے ہیں۔ اس معاملے میں مذہبی لوگ عالمی آفات میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کو عقل سے کام لینے کا کہیں اور سب انسانوں کے لئے بلا امتیاز ہمدردی اور خیال کرنے کی تلقین کریں۔

شاگرد: اور وہ لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے وہ کیا کریں؟

استاد: لا دین افراد عالمی آفات میں ان مذہبی گروہوں کے ساتھ شامل ہو کر اس معاملے میں ان کی کوششوں کا ساتھ دیں کہ یہ مذہبی گروہ بحیثیت گروہ ان افراد سے بہتر ہیں کہ جو اکیلے اکیلے اپنی مرضی سے رہتے ہیں۔

شاگرد: اس سے کیا ہوگا؟

استاد: دیکھو بیٹا جس طرح وبا یا بیماری سے بچنے کے لئے اس بیماری کے خلاف ویکسینیشن کر کے گروہی مدافعت یاherd immunity  حاصل کی جاتی ہے۔ اسی طرح عالمی آفات میں جب کہ انسان میں اپنے بچاؤ کے لئے خودغرضی کی وبا پھوٹ پڑتی ہے تو اس کے لئے معاشرتی گروہوں کو اس خود غرضی کو ختم کرنے کے لئے اخلاقی ویکسینیشن کی ضرورت پڑتی ہے اور اسے مہیا کرنے میں وہی لوگ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ جن کا بڑا گروہ ہو اور وہ اسے متاثر کر کے معاشرے  میں خودغرضی کی وبا کے خلاف گروہی اور اخلاقی مدافعت فراہم کر سکیں۔

شاگرد: یہ خود غرضی کی وبا کیا ہوتی ہے اور اس کے کیا نقصانات ہیں؟

استاد: بیٹا کوئی بھی آفت یا بیماری جب علاقائی، ملکی یا عالمی صورت اختیار کر جائے تو پھر ہر کوئی اپنا بچاؤ کرتا ہے اور اس دوران وہ کسی کا خیال کیے بغیر زیادہ سے زیادہ اپنے بچاؤ کی تدابیر کرتا ہے جس سے بعض اوقات وہ اپنی ضرورت سے زیادہ چیزیں اپنے پاس جمع کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر باقی لوگوں کے لئے ان ضرورت کی چیزوں کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور پھر ہوسکتا ہے کہ وہ ضرورت مند ان چیزوں کی کمی کا شکار ہو کر یا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا پھر ان ضرورت کی چیزوں کے حصول کے لئے دوسروں کی جان لے لیں۔

لہٰذا مذہبی لوگوں کی طرف سے ایک دوسرے کی مدد کی تلقین اور اخلاقیات کی تلقین میں غیر مذہب والے بھی ان کا ساتھ دیں تو اس سے کل انسانیت کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اسی طرح مذہب والے بھی لامذہب لوگوں کی آفات سے بچاؤ کے لئے معقول باتوں میں ان کا ساتھ دے کر انسانوں کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

شاگرد: کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لامذہب والوں نے مذہب قبول کر لیا اور مذہب والے لامذہب ہو گئے؟

استاد: اس کا یہ مطلب ہوگا کہ دونوں نے حقیقت پسندی سے کام لیا اور حقیقیت کو قبول کر کے انسانیت کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور اس دوران تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا کہ ہم کیوں مخالف فریق کے ساتھ چلیں یا اس کی مانیں اور یہی انسانیت کا مظاہرہ ہر آفت میں انسان اور انسانیت کے لئے ضروری ہے۔

 

مصنف @R00mi1 پر ٹوئیٹ کرتے ہیں۔