نام کے آگے سوالیہ نشان: گزشتہ روز تباہ ہونے والے جہاز پر سوار نہ ہوسکنے والی ائیر ہوسٹس کو قسمت نے کونسی رکاوٹ ڈال کر موت سے بچایا؟

نام کے آگے سوالیہ نشان: گزشتہ روز تباہ ہونے والے جہاز پر سوار نہ ہوسکنے والی ائیر ہوسٹس کو قسمت نے کونسی رکاوٹ ڈال کر موت سے بچایا؟

گذشتہ روز کراچی میں ہونے والے  طیارے حادثہ نے  جہاں کئی گھرانوں کو شدید کرب اور اذیت میں مبتلا کر دیا ہے تو وہیں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جسے اس جہاز میں اپنے فرائض منصبی کے لئے لازمی سوار ہونا تھا تاہم قسمت نے اسکے کے لئے ایسی رکاوٹ پیدا کی کہ وہ اس بد قسمت طیارے میں نہ جا سکیں اور حادثے کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئیں۔


جمعۃ الوداع کے روز پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی ائیر ہوسٹس مدیحہ ارم کی ڈیوٹی اس طیارے کے ساتھ تھی جو کراچی میں تباہ ہوا۔ تاہم حکام کی جانب سے بروقت تصدیق نہ ہونے کے باعث جمعہ کو اپنی ڈیوٹی پر نہ جا پائیں اور اس حادثے سے محفوظ رہیں۔


مدیحہ بتاتی ہیں کہ وہ ڈیوٹی پر جانے کے لئے تیار تھیں اورانہیں بتایا گیا تھا کہ ڈیوٹی روسٹر کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے اس طیارے پر ان ہی کی بطورایئر ہوسٹس ڈیوٹی لگی تھی۔ مگرعین وقت تک انھیں اس پرواز کے لیے کنفرم نہ کیا گیا اور ان کی جگہ دوسری فضائی میزبان کو اس طیارے پر میزبانی کے فرائض تفویض کر دیے گئے۔









انھوں نے کہا کہ میں وقت مقررہ پر تیار تھی مگر پی آئی اے کی گاڑی مجھے ایئرپورٹ تک لے جانے کے لیے نہ آئی۔ اور یہ میرے لئے حیران کن تھا۔  وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے دفتر سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ میرے نام کے آگے سوالیہ نشان لگا ہوا ہے اور اسی وجہ سے دوسری فضائی میزبان انعم خان کو میرے متبادل کے طور پر طلب کر لیا گیا ہے۔


مدیحہ نے بتایا کہ مجھے اس بابت آگاہ کرتے ہوئے متعلقہ شعبے نے بتایا کہ اب مجھے گاڑی لینے نہیں آئے گئی۔


انھوں نے کہا کہ وہ پریشان تھیں کہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں ایسا ہونا پریشان کُن تھا کیونکہ میں نے آج (جمعہ) کو ڈیوٹی نہ کرنے کی بھی کوئی درخواست نہیں دے رکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’شاید میری زندگی تھی اسی لیے میں بچ گئی ہوں۔‘


انھوں نے بتایا کہ جب سے انھیں حادثے کا پتا چلا ہے وہ صدمے کی حالت میں ہیں اور وہ اس صدمے سے نکل نہیں پا رہی ہیں۔