چینی بحران رپورٹ: اسد عمر، عبدالرزاق داؤد اور عثمان بزدار کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام

چینی بحران رپورٹ: اسد عمر، عبدالرزاق داؤد اور عثمان بزدار کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام
شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ جمعرات کے روز منظر عام پر لائی گئی جس میں چینی برآمد پر سبسڈی دینے پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد اور وزیراعلیٰ پنجاب کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گذشتہ 5 سالوں میں 40 لاکھ ٹن سے زائد چینی برآمد کی، جس پر برآمداتی سبسڈی کی مد میں 29 ارب روپے دیے گئے۔ چینی پر سبسڈی دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملز مالکان لاگت سے کم بین الاقوامی قیمت پر چینی برآمد کرتے ہیں تو لاگت اور قیمت میں آنے والے فرق کو ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائے گئے پیسے سے دور کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کمیشن کو بتایا کہ ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلے کی بہت ضرورت تھی اور چونکہ ملک میں چینی کے کافی ذخائر موجود تھے اس تناظر میں چینی کی برآمدات کا فیصلہ درست تھا۔ ساتھ ہی ان کا یہ کہنا تھا کرشنگ سیزن بھی شروع ہونے والا تھا اس لیے ملک میں بظاہر چینی کی ایسی کوئی قلت نہیں تھی جس سے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ای سی سی کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو سبسڈی دینے کی اجازت دینے کے فیصلے کے بارے میں اسد عمر کا جواب کمیشن کو مطمئن نہیں کرسکا۔ اسد عمر نے وجہ بتائی کہ سبسڈی کے صوبائی معاملے کا فیصلہ کرنے کا قانونی اختیار وفاقی حکومت کے پاس نہ ہونا اس فیصلے میں تبدیلی کی وجہ بنا لیکن یہ وجہ ای سی سی کے بعد کے فیصلوں کی عکاس نہیں۔

دوسری جانب مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کمیشن کو بتایا کہ ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کی شدید ضرورت تھی اور چینی کا سرپلس اسٹاک موجود تھا۔ ان سے پوچھا کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اسٹاک اورذخائر کے حوالے سے جو بیان دیا کیا اس پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا جس پر مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار گنے کے کمشنرز نے اجلاس میں پیش کیے تھے اس لیے ان پر بھروسہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کسی بھی وقت چینی کی کوئی قلت نہیں ہوئی اور سال کے آخر تک چینی دستیاب تھی۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کے باجود برآمدات جاری رکھنے کے حوالے سے ان کا جواب کمیشن کو قائل نہیں کرسکا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیشن نے اتنے ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ چینی کی برآمدات مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ تھی اس کے علاوہ دیگر وجوہات میں ہیر پھیر، ذخیرہ اندوزی، آگے کے ٹھیکے اور شوگر سیکٹر کے کھلاڑیوں کا سٹا شامل تھا۔

چینی تحقیقاتی کمیشن نے کہا کہ سیکریٹری خوراک شوکت علی نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو 2 ارب 96 کروڑ روپے کی ضمنی گرانٹ کی سمری ارسال کی تھی تا کہ 18-2017 میں چینی کی درآمدات پر زیر التوا ادائیگیاں کی جاسکیں۔

رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کو حکومت پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کے بارے میں بریف کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ کابینہ کمیٹی برائے چینی کے 17 دسمبر 2018 کو ہوئے اجلاس میں سبسڈی کا جائزہ لیا گیا جس میں اس کی منظوری دی گئی۔ جب ان سے 6 دسمبر 2018 کو ہونے والے اجلاس کے نکات کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب کی شوگر ملز کو 35 روپے فی کلو سبسڈی دینے کا غیر اصولی فیصلہ کیا گیا تو انہوں نےجواب دیا کہ انہیں وہ اجلاس یاد نہیں۔

کمیشن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ 6 دسمبر کو کیا گیا فیصلہ 4 دسمبر کو ای سی سی کے اجلاس کے فیصلے سے بھی پہلے کیا گیا تھا۔ کمیشن کا مؤقف یہ تھا کہ دی گئی سبسڈی ناجائز تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنا موف پیش کیا کہ سبسڈی کابینہ نے دی تھی اور یہ ایک اجتماعی فیصلہ تھا لیکن اجلاس کے نکات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔