ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کو پر تول رہی ہے

ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کو پر تول رہی ہے
جمعرات کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والے فہد حسین کے کالم میں پانچ عدد آپشنز کا ذکر کیا گیا تھا۔ ان میں سے پانچویں آپشن پراسرار طور پر پوشیدہ رکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ فی الحال اسے آپشن شمار نہیں کیا جا رہا۔ یقیناً ان کا اشارہ مارشل لا کی طرف تھا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مارشل لا لگانے کا اس وقت آپشن زیرِ غور نہیں لایا جا رہا لیکن نہ جانے کب اس پر غور شروع کر دیا جائے۔ کیونکہ حالات جس انداز میں تعطل کا شکار ہیں، کوئی ایسی راہ نظر نہیں آ رہی جس سے یہ گومگو کی کیفیت ختم ہو اور معاملات حل کی طرف بڑھیں۔

ابھی تک کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لیکن یہی کہا جا سکتا ہے کہ فہد حسین کی جانب سے سامنے لائے گئے باقی چارآپشنز زیادہ قرین از قیاس ہیں۔ ان میں سے دو آپشن ایسے ہیں جن میں حکومتی جماعت کے اتحادیوں کا کردار کلیدی ہے۔ ان کا حکومت میں رہنا یا اس سے نکلنا ہی اس حکومت کے مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے جیو نیوز پر شاہزایب خانزادہ نے دو بڑی اتحادی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی موومنٹ کے دو سرکردہ رہنماؤں سے اپنے پروگرام میں گفتگو کی ہے۔ مسلم لیگ ق سے ان کے ساتھ کامل علی آغا تھے جب کہ ایم کیو ایم کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی اپنی جماعت کی نمائندگی کر رہے تھے۔

دونوں رہنماؤں نے باتیں تو بہت سی کیں لیکن سیاسی تجزیے میں کہی گئی بات سے زیادہ اہم وہ بات ہوتی ہے جو سیاستدان کہہ نہ رہا ہو لیکن سمجھانا چاہ رہا ہو۔ مثلاً کامل علی آغا سے جب سوال کیا گیا کہ وہ موجودہ حکومت کی کرکردگی پر ماضی میں تنقید کر چکے ہیں تو کیا اب بھی وہ اس پر تنقید کریں گے، تو ان کا جواب تھا کہ ہم حکومت کو پہلے دن سے کہتے رہے ہیں کہ عوام کو ریلیف دینا پڑے گا ورنہ معاملہ حکومت کے اپنے اوپر آ جائے گا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت میں کوئی آواز نہیں سن رہا۔ ان سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ مشاورت کی جائے لیکن اس کا سلسلہ درمیان میں ٹوٹ جاتا ہے۔ کامل علی آغا نے یہ بھی کہا کہ گورننس میں بہتری بھی مشاورت سے ہی آتی ہے لیکن تحریکِ انصاف حکومت میں نجانے کیوں اس سے احتراز برتا جاتا ہے۔

کامل علی آغا کے الفاظ سے ایسا لگتا نہیں کہ وہ حکومت سے فی الحال اتنے ناراض ہیں کہ اتحاد توڑنے کے لئے تیار ہوں۔ اس کی ایک دلیل ان کا اسی پروگرام میں یہ پیغام بھی تھا کہ مسلم لیگ ق اپنے اتحادیوں کو درمیان میں نہیں چھوڑتی۔ پھر انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب اپوزیشن ہے جس کا ایجنڈا اس سے بھی زیادہ انتشار پھیلانے کا ہے۔ ان کو عوام کا کوئی درد نہیں بلکہ وہ صرف انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ جملے واضح کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ ق صرف حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہم سے بات کرو۔ مشاورت کرو۔ تاہم، انہوں نے حکومت کی مہنگائی کنٹرول نہ کر پانے اور مسلسل ڈالر کی قیمت کو بڑھاتے چلے جانے کی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ یہ کسی بھی صورت مسائل کا حل نہیں ہو سکتا۔

ایک اور اہم سوال جس پر ان کا جواب بڑا واضح تھا وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈی جی آئی ایس آئی کے تنازعے کو لے کر تھا جس پر انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بلاوجہ اس معاملے کو طول دیا گیا، یہ غیر ضروری تھا اور اس کی وجہ سے تعلقات میں ایک دراڑ یقیناً آئی ہے۔

ایم کیو ایم کا معاملہ البتہ مختلف دکھائی دیا۔ خالد مقبول صدیقی کسی ایک موقع پر بھی حکومت کے ساتھ بات چیت کی طرف راغب دکھائی نہیں دیے۔ وہ واضح الفاظ میں یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ وہ حکومت چھوڑنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے ہر ہر جملے سے واضح تھا کہ وہ خود کو حکومت کے ساتھ زیادہ نتھی دکھانا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ اتحاد میں اس لئے گئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو لیکن جو صورتحال ہے اس میں ایم کیو ایم کو اپنے حوالے سے بھی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کرنے کا وقت ابھی ہے اور ایم کیو ایم جلد یہ فیصلہ کر بھی لے گی۔

اس موقع پر ایک اور انتہائی اہم سوال جو شاہزیب خانزادہ نے اٹھایا وہ ایم کیو ایم کی سیاست کے حوالے سے تھا۔ خانزادہ کا سوال یہ تھا کہ کراچی کے جن حلقوں میں تحریکِ انصاف نے ان کو شکست دی ہے، وہ ماضی میں ایم کیو ایم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اب بھی ایم کیو ایم کا تحریکِ انصاف سے انہی حلقوں میں مقابلہ ہوگا تو اگر ایم کیو ایم ان کے ساتھ ہی رہے گی تو الیکشن کی صورت میں ان حلقوں میں کس بنیاد پر پی ٹی آئی کی مخالفت کر سکے گی؟

اس سوال پر خالد مقبول صدیقی نے تسلیم کیا کہ ایم کیو ایم کے سامنے یہ سیاسی صورتحال یقیناً ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم عوام الناس کی صورتحال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی مسئلہ اپنی جگہ لیکن وہ متوسط اور نچلے درجے کا متوسط طبقہ جو کہ ایم کیو ایم کی اصل طاقت ہے اور جس کا نمائندہ ہونے کا ایم کیو ایم دعویٰ کرتی ہے، وہ اس وقت معاشی طور پر انتہائی دباؤ میں ہے۔

خالد مقبول صدیقی سے بھی دو اہم سوال شاہزیب خانزادہ نے ملکی صورتحال پر کیے۔ پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کی نوعیت کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ پہلے جیسی صورتحال تو اب نہیں رہی ہوگی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ تحریکِ انصاف کی حکومت کو مدت مکمل کرتے دیکھ رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے کچھ بھی حیران کن نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کی جانب سے رابطوں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے گذشتہ برس تو ان سے کوئی مدد طلب نہیں کی تھی لیکن ان سے پارلیمنٹ میں بات ہوتی رہتی ہے اور ان کے کچھ تحفظات پر ایم کیو ایم بھی ان سے اتفاق رکھتی ہے۔

کراچی میں موجود ذرائع نے نیا دور کو بتایا کہ ایم کیو ایم کو کہا گیا ہے کہ عمران خان کو دباؤ میں لائیں اور اپنی حمایت ان سے واپس لے لیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے فوری طور پر اپنے ایم این ایز کو مشاورت کے لئے کراچی طلب کر لیا ہے اور شاید وہ اپنی حمایت حکومتی اتحاد سے واپس لے سکتی ہے۔

ذرائع کی خبر کو خالد مقبول صدیقی کی باتوں سے تقویت ملتی ہے۔ اگلے چند ہفتے ملکی سیاست میں اہم ترین ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کون خود کو باقیوں سے زیادہ طاقتور ثابت کرتا ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.