صحافی، کالم نویس اور ترقی پسند دانشور زمان خان انتقال کر گئے

صحافی، کالم نویس اور ترقی پسند دانشور زمان خان انتقال کر گئے
پاکستان کے معروف ترقی پسند دانشور، کالم نویس اور صحافی زمان خان قضائے الہیٰ سے وفات پا گئے ہیں۔

زمان خان بہت عرصہ ''نیا دور'' کیساتھ وابستہ رہے۔ ان کی جانب سے لکھی گئی اردو اور انگلش کی تحریریں نیا دور کی ویب سائٹ کی زینت بنتی رہیں۔

مرحوم صحافی زمان خان نے نیا دور کیلئے مختلف شخصیات کے انٹرویوز بھی لئے جبکہ سیاست، معاشرت اور انسانی حقوق سمیت مختلف موضوعات کو اپنی ذہن سے تحریروں میں اتارا۔

زمان خان نے جن مشہور شخصیات کے انٹرویوز کئے ان میں بھارتی دانشور رومیلا تھاپر، بزرگ دانشور طارق علی، ابراہیم جویو، کامریڈ چوہدری فتح محمد، نسرین انجم بھٹی ودیگر قابل ذکر ہیں۔

ان کی نیا دور کیلئے چند بہترین تحاریر درجِ ذیل ہیں:

پروفیسر رومیلا تھاپر کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں- وہ دنیا کے علمی حلقوں میں خاص کر انڈیا کی قدیم تاریخ لکھنے کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ انہوں نے  تاریخ کی کئی کتابیں لکھی ہیں مگر بقول  تھاپر’ لکھ چکی ہوں جو لکھنا تھا -اب کتاب لکھنا بند کردیا ہے’۔

ان کی لاہور کے ساتھ بہت یادیں وابستہ ہیں جہاں پر ان کے دادا کا لارنس روڈ پر گھر تھا۔ زمان خان نے دہلی میں ان کا بھی انٹرویو کیا تھا۔



نیا دور نے یہ انٹرویو اردو زبان میں شائع کیا: بھارت میں ڈکٹیٹر شپ آگئی تو خطے کی سیاست بدل جائے گی: بھارتی دانشور رومیلا تھاپر کے ساتھ ایک نشست

برصغیر کی عظیم شاعرہ امرتا پریتم سے زمان خان کی قریبی دوستی تھی۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے لکھا: میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ جب بھی میں امرتا کو اس کے گھر ملنے دہلی جاتا تو امروز بھی وہاں موجود ہوتا اور ہماری بات چیت میں شریک ہوتا بلکہ میں اپنے تئیں یہ سمجھتا ہوں کہ میں واحد پاکستانی ہوں جسے امرتا اور امروز [دو ساتھیوں] کو انڑویو کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔



یہ انٹرویو بھی اردو میں نیا دور پر شائع ہوا: امروز اور امرتا کی پریم کہانی: کوئی لازوال دھن ہو جیسے محبت کی

جب وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمان کے پلیٹ فارم سے اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا تو زمان خان نے اس پر ایک تنقیدی تجزیہ لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے عمران خان نے یہ جملہ غلطی سے کہہ دیا ہوگا۔

"چونکہ میں عمران کی سیاست اور شخصیت کو ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان وزیر اعظم پاکستان نے جانتے بوجھتے اور شعوری طور پر قومی اسمبلی کے فلور اسامہ بن لادن کو ‘شہید’ کہا ہے-

میرا تو عمران اور اس کے ساتھی جنہوں نے امریکہ سے ڈالروں کے عوض امریکہ کا افٰغانستان میں ساتھ دیا ان سے نظریاتی اختلاف ہے۔ اس لئے میرے نزدیک یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس ایک بات پر عمران کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا جائے۔ آخر میں یہ بھی عرض کروں گا اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پاکستانی معاشرے میں  عمران کے بہت سارے حامی ہیں۔ اگر کوئی شک ہو تو اسامہ کی شہادت پر ریفرنڈم کروا کے دیکھ لیں"



ان کا یہ تجزیہ یہاں پڑھا جا سکتا ہے: اسامہ بن لادن۔۔۔۔ شہید؟

'کنا سوہنا تینوں رب نے بنایا' سمیت نصرت فتح علی خان کے لازوال گیتوں کے خالق بری نظامی کی ایک مفصل پروفائل بھی زمان خاں نے لکھی۔ یہ بری نظامی پر لکھی گئی چند بہترین تحاریر میں سے ایک گردانی جا سکتی ہے۔

یہاں پڑھیے: نصرت فتح علی خان کو جادوئی گیت بخش کر لیجنڈ بنانے والے غریب شاعر بری نظامی

زمان خان ایک ترقی پسند دانشور تھے اور وہ ایٹمی ہتھیاروں کے بھی کوئی بہت دلدادہ نہیں تھے۔ چند برس پہلے جب 'ایٹمی دھماکے کس نے کروائے' کی بحث ملک میں زوروں پر تھی تو انہوں نے نیا دور کے لئے یہ کالم لکھا تھا۔

نواز شریف کی اس وقت کی کابینہ کے لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور بقول ہمارے دوست نصرت جاوید ‘لال حویلی والے بقراط’ تو بہت دور تک جاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ دھماکہ انہوں نے کروایا۔ مگر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دھماکوں کے بعد میں ہونے والے واقعات سے گھبرا کر ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی ان کی بات میں وژن تھا اور وہ بغیر دلیل کے بات نہیں کر رہے تھے۔ اب تو شائد ایٹم بم بنانے یا نہ بنانے کی بحث لا یعنی اور لا حاصل ہو چکی ہے کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔



زمان خان کا مکمل کالم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے: پاکستان کو ایٹمی قوت کس نے بنایا؟

بائیں بازو کے بزرگ دانشور کئی برس پہلے پاکستان آئے تو زمان خان نے انہیں بھی انٹڑویو کیا تھا۔ اس انٹرویو میں طارق علی نے اپنی پرانی یادیں بھی ان کے ساتھ شیئر کیں۔

"پچھلی دفعہ میں نے عوام سے 1969 میں خطاب کیا تھا جب میں نے سارے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت جب مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ تھا اور میں نے وہاں تقریریں کیں۔ پاکستان کے لئے بہت ہے تکلیف دہ وقت تھا۔ 1970 کے الیکشن کو قبول نہ کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔ آپ بنگالیوں کو اپنے لیڈروں کو ووٹ دینے پر قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے۔


بعد میں جنرل ضیا کے دور میں مجھے آنے نہ دیا گیا۔ اس کے بعد سے میں مسلسل پاکستان اپنے ماں، باپ اور دوستوں کو ملنے آتا رہا ہوں –لیکن یہ بہت ہی نجی دورہ ہوتے تھے۔ جب اقبال فاونڈیشن نے مجھے تین لیکچر دینے کے لئے بلایا تو میں بہت متاثر ہوا۔ میں پوری دنیا میں لیکچر دیتا ہوں۔ میں امریکہ میں ہر ماہ تین، چار دفعہ لیکچر دیتا ہوں۔


جو چیز لوگ امریکہ کے بارے میں بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ گو امریکہ ایک بہت بڑی سلطنت ہے اور وہاں کی حکومت اس وقت اپنے سامراجی عزائم کو پورا کر رہی ہے۔ لیکن ایک اور امریکہ بھی ہے۔ مخالف تحریکوں کا امریکہ۔ بادی کا ایک بہت بڑا حصہ لبرل، لیفٹ دانشور ہے جو امریکہ کی فرمانروائی پالیسی کے خلاف ہے۔ سو جب بھی میں امریکہ میں خطاب کرتا ہوں تو یہ بڑی میٹنگزہوتی ہیں۔ سو جو میں امریکہ میں کرسکتا ہوں وہی پاکستان میں کروں تو بہت اچھا ہوگا۔"



مکمل انٹرویو یہاں پڑھا جا سکتا ہے: پاکستانی بائیں بازو کے بزرگ دانشور طارق علی کے ساتھ اک بیٹھک کی کچھ یادیں