کتاب: ادھوری یادیں
مصنف: شیخ مجیب الرحمان (1920-1975)
خلاصہ: محمّد عبدالحارث
(عرضِ مصنف: شیخ مجیب الرحمان پاکستان کی تاریخ کی اہم اور متنازع شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ لیکن ہم شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں کم جانتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی زندگی کو پاکستان کے حوالے سے دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قیامِ پاکستان سے پہلے اُن کا تحریکِ پاکستان میں کردار اور دوسرا قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاست میں اُن کا کردار۔ اب اس کے بارے میں کیا کہا جائے کہ پاکستان میں سکولوں اور کالجوں میں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ تاریخ کے مضمون کو “مطالعہ پاکستان” سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ معروف تاریخ دان عائشہ جلال کے مطابق پاکستان میں سکولوں میں تاریخ کی بجائے آئیڈیالوجی پڑھائی جاتی ہے۔ تو جو باتیں یا شخصیتیں اس آئیڈیالوجی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں اُن کا ذکر غائب کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً ہم قیامِ پاکستان اور پاکستان کے بعد کی تاریخ کے بارے میں نامکمل معلومات رکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل مضمون شیخ مجیب الرحمان کی خود نوشت “ادھوری یادیں” کا خلاصہ ہے)
“ادھوری یادیں” شیخ مجیب الرحمان کی اُن چار نوٹ بُکس پر مشتمل کتاب ہے جو اُنھوں نے 1967 میں جیل میں قید رہتے ہوئے تحریر کی تھیں۔ اس کتاب کا نام “ادھوری یادیں” شاید اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ اُن کی مکمل سیاسی زندگی کا احاطہ نہیں کرتیں۔ اس کتاب میں مجیب الرحمان نے اپنی زندگی کے 1955 تک کے واقعات درج کیے ہیں۔ اس لئے اُن کو مکمل یادداشتیں نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ 16 دسمبر، 1971 کے بعد شیخ مجیب الرحمان زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے۔ بنگلہ دیش بننے کے قریباً چار سال کے اندر ہی 15 اگست، 1975 کو چند فوجی افسران کے گروپ نے اُن کو قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے میں کُل سولہ افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ مرنے والوں میں اُن کے تین بیٹے بھی شامل تھے۔ لیکن شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد (جو بنگلہ دیش کی موجودہ وزیرِ اعظم ہیں) اُس وقت ملک سے باہر تھیں۔ حسینہ واجد نے جلاوطنی اختیار کی اور چھ سال بعد 1981 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ میں طویل سیاسی جدّوجہد کی۔ حسینہ واجد 1996 میں پہلی دفعہ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم بنیں اور 2001 تک اپنی مُدّت پوری کی۔ اُس کے بعد ہونے والے انتخابات میں اُن کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد 2009 میں حسینہ واجد دوبارہ وزیرِ اعظم بنیں اور اب تک بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم ہیں۔
25 مارچ 1971 کی نصف شب کو جب شیخ مجیب الرحمان نے آزادی کا اعلان کیا تو اس کے کچھ ہی دیر بعد دھان منڈی 23 نمبر سڑک پر واقع اُن کے گھر پر پاکستانی فوج نے چھاپہ مارا اور اُن کو گرفتار کر کے لے گئی۔ اُس وقت حسینہ واجد کے بقول اُن کے مکان میں لوٹ مار کی گئی اور اُن کی والدہ نے اپنے دو بیٹوں سمیت پڑوس میں پناہ لی۔ لیکن یہ نوٹ بُکس بے ضرر سمجھ کر چھوڑ دی گئیں۔
15 اگست 1975 کو جب شیخ مجیب الرحمان کو قتل کیا گیا تھا تو اُس وقت سے اُن کے گھر کو سیل کر دیا گیا تھا۔ 17 مئی، 1981 کو حسینہ واجد جلا وطنی ترک کر کے بنگلہ دیش واپس آ گئیں۔ اُسی سال 12 جون کو اُن کا مکان اُن کے حوالے کر دیا گیا۔ اُس وقت اُن کو اپنے والد صاحب کی یادداشتیں، اُن کی ڈائریاں، اور چین کے سفر کے بارے میں لکھی گئی اُن کی نوٹ بُکس تو مل گئیں لیکن اُن کی خود نوشت پر مُشتمل نوٹ بُکس نہیں مل سکیں۔ قریباً 2004 میں اُن کو یہ چار نوٹ بُکس مل گئیں لیکن اُسی سال 21 اگست کو اُن کی ریلی پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ اُس کے بعد اُن کو مجیب الرحمان کی مزید نوٹ بُکس ملیں۔ اس کتاب کو سب سے پہلے بنگلہ زبان میں تحریر کیا گیا اور 2010 میں اس کی اشاعت ہوئی۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ 2012 جب کہ اُردو ترجمہ 2013 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے شائع کیا۔ اُردو ترجمہ یاور امان نے کیا ہے۔ اس کتاب کا کئی اور زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا جس میں چینی، جاپانی، فرنچ، ہندی، تُرکی، عربی، اور ہسپانوی زبانیں شامل ہیں۔
اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ کتاب کا وہ ہے جس میں شیخ مجیب الرحمان نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتایا ہے اور تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں اپنی شرکت کے بارے میں بتایا ہے۔ مجیب الرحمان نے اپنے علاوہ بنگال کی کئی شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں فضلِ حق، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، اور مولانا بھاشانی کے نام نمایاں ہیں۔ کتاب میں مجیب الرحمان کا جھکاؤ واضح طور پر حسین شہید سہروردی اور مولانا بھاشانی کی طرف دیکھا جا سکتا ہے۔
سکول کی پڑھائی اور سیاست میں داخلہ
1938 میں فضلِ حق صاحب جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور حسین شہید سہروردی جو اُن دنوں وزیرِ محنت تھے اُن کے علاقے گوپال گنج میں آئے۔ فضلِ حق اُن دنوں مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے اس لئے بنگال میں ایک طرح سے مسلم لیگ کی وزارت قائم ہو گئی تھی۔ مجیب الرحمان اُن دنوں سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اعصابی ورم کی وجہ سے اُن کا دل کمزور پڑ گیا تھا جس کا علاج کرانے کی غرض سے اُن کے والد اُن کو کلکتہ لے گئے۔ بعد ازاں اُن کی آنکھوں میں کالا پانی اُتر آیا جس کے لئے اُن کو پھر کلکتہ جانا پڑا۔ اس کی وجہ سے اُن کو پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ تو وہ سکول کی پڑھائی میں پیچھے رہ گئے تھے۔ چونکہ بنگال کے مسلمانوں کے دو ممتاز رہنما آ رہے تھے اس لئے وہاں کے مسلمانوں میں جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ شروع میں استقبالیہ کمیٹی میں ہندوؤں کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن کانگریس کے اشارے پر وہ اس سے الگ ہو گئے۔ اُس وقت جلسے کے علاوہ ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ فضلِ حق صاحب پبلک ہال اور سہروردی صاحب مشن سکول دیکھنے گئے۔ مشن سکول میں شیخ مجیب الرحمان نے اُن کا استقبال کیا جس کی وجہ سے اُن دونوں حضرات کا آپس میں تعارف ہوا۔ سہروردی صاحب نے مجیب سی پوچھا کہ اُن کے علاقے میں مسلم لیگ کی تنظیم ہے؟ جس کا اُنھوں نے نفی میں جواب دیا۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ یہاں مسلم طلبہ لیگ بھی نہیں ہے۔ اُس وقت سہروردی صاحب نے ایک نوٹ بُک نکال کر مجیب الرحمان کا نام اور پتہ لکھ لیا۔ کچھ دنوں بعد مجیب کو اُن کا خط موصول ہوا جس میں اُنھوں نے مجیب کا شکریہ ادا کیا تھا اور لکھا تھا کہ اگر کبھی کلکتہ آنا ہو تو وہ اُن سے آ کر ملیں۔ مجیب الرحمان نے اُن کے خط کا جواب دیا اور اس طرح شیخ مجیب الرحمان اور حسین شہید سہروردی کے درمیان خط و کتابت کا آغاز ہوا۔
جنگِ عظیم دوئم کے برسوں میں فضلِ حق اور جناح صاحب کے تعلقات میں کشیدگی آ گئی تھی۔ فضلِ حق نے جناح صاحب کی لیڈرشپ ماننے سے انکار کیا اور بنگال میں شیام پرشاد مکھرجی سے مل کر متحدہ حکومت بنا لی۔ مسلم لیگ اور اُس کے کارکنوں نے اُن کے خلاف تحریک شروع کی جس میں مجیب الرحمان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1942 میں مسٹر جناح صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لئے بنگال آئے۔ یہ اجلاس سراج گنج پبنہ میں ہونا تھا۔ مجیب الرحمان نے پارٹی کارکنوں کے ہمراہ اس اجلاس میں شرکت کی۔
شیخ مجیب کا خواجہ ناظم الدین سے اختلاف اور حسین شہید سہروردی سے قربت
اس دوران وہ اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور طلبہ میں بہت مقبول ہو گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ طلبہ یونین کے انتخابات میں اُن کے نامزد کردہ اُمیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ بعد میں اُن کے نامزد کردہ اُمیدوار بلا مقابلہ منتخب ہونے لگے۔ مجیب کے بقول خواجہ ناظم الدّین نے اقربا پروری کی۔ 1937 کے انتخابات میں خواجہ ناظم الدّین کے خاندان کے کم از کم 11 ارکان ایم ایل ایز منتخب ہوئے۔ پھر 1943 میں جب وہ وزیرِ اعلیٰ بنے تو اُنھوں نے اپنے چھوٹے بھائی خواجہ شہاب الدّین کو وزیرِ صنعت بنا دیا۔ مجیب الرحمان نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس عمل پر اعتراض کیا لیکن اُن کے اعتراض کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اُس زمانے میں بنگال میں قحط پڑا جو شِدّت اختیار کر گیا۔ مجیب الرحمان نے اس سلسلے میں حسین شہید سُہروردی، جو سِول سپلائی کے وزیر تھے، کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اُس زمانے میں انگریزوں کی پہلی ترجیح جنگ تھی، انسان ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ چنانچہ ریل گاڑیوں میں پہلے اسلحہ اور گولہ بارود بھرا جاتا۔ اس کے بعد بچ جانے والی جگہ ہی اناج کی منتقلی کے لئے استعمال ہو سکتی تھی۔ مجیب الرحمان لکھتے ہیں کہ یہ اُس ریاست کی حالت تھی جو ایک زمانے میں اتنی امیر ہوا کرتی تھی کہ اُس کا ایک مالدار تاجر لندن شہر خرید سکتا تھا۔
اُس وقت حسین شہید سُہروردی نے لنگر خانے کھولنے کا بندوبست کیا جس میں شیخ مجیب الرحمان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سلسلے میں اُن کو اپنی پڑھائی کا سلسلہ بھی ترک کرنا پڑا۔ مجیب الرحمان کے آبائی علاقہ گوپال گنج کے ساتھ ہی ضلع جیسور، کھلنا، اور باریسال واقع تھے۔ مجیب الرحمان نے اُن علاقوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے مسلم لیگ کی ایک کانفرنس بھی منعقد کی۔ اس کے علاوہ یہ مقصد بھی تھا کہ لوگوں میں قیامِ پاکستان کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور اُن میں پاکستان کی حمایت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ وہ لوگوں پر پاکستان کا تصور واضح کرنے کے لئے ہندوستان کا ایک نقشہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ بنگال میں اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن ہندوؤں کی بھی کثیر تعداد موجود تھی۔ مجیب الرحمان کی کئی ہندوؤں سے دوستی تھی۔ لیکن ایک بات اُنھوں نے محسوس کی کہ اُن کے ہندو دوست اُن کے گھر تو آ جاتے تھے لیکن اُن کو اپنے گھر نہیں بلاتے تھے۔ انگریزی زبان نہ سیکھنے کی وجہ سے اُس زمانے کے مسلمان ہندوؤں سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ مجیب الرحمان یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کا مطالبہ ہندوؤں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے مفادات کا تحفّظ کرے گا۔ اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ نے جس پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اُس میں پورا بنگال اور پورا پنجاب شامل تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان میں %40 کے لگ بھگ آبادی ہندوؤں اور سکھوں کی ہوتی۔ اس صورت میں پاکستان کی تشکیل ایک مسلم سیکولر ریاست کی شکل میں ہوتی۔ جیسے کہ ملائیشیا میں ہے۔
مسلم لیگ کے بڑے لیڈران سے ملاقات
1943 میں دلّی میں آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس ہوئی جس میں شیخ مجیب الرحمان نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں شرکت کر کے اُن کو مسلم لیگ کے مرکزی رہنماؤں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کے مطابق اس کانفرنس میں ایک مُقرر نے تین گھنٹے اُردو میں تقریر کی۔ اُن کی تقریر گونجدار اور کے اشاروں سے کام لینے کا انداز زبردست تھا۔ مجیب کو اُردو تھوڑی بہت تو آتی تھی لیکن اس مقرر کی اُردو اُن کے لئے بہت مُشکل تھی۔ وہ مُقرّر نواب بہادر یار جنگ تھے جن کا تعلق حیدرآباد دکّن سے تھا۔ اور وہ ریاستی مسلم لیگ کے صدر تھے۔ اُنھوں نے دلّی کی مشہور جگہیں جیسے لال قلعہ، جامع مسجد، قطب مینار بھی دیکھیں۔
مسلم لیگ میں دھڑے بندی
اُس زمانے میں بھی مسلم لیگ اور طلبہ لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھیں۔ ایک دھڑا سہروردی صاحب کے ساتھ تھا جب کہ دوسرا خواجہ ناظم الدّین کے ساتھ۔ مجیب الرحمان جب سبھاش چندر بوس کی تقریریں ریڈیو پر سُنتے تو بہت پُرجوش ہو جایا کرتے تھے۔ اپنی یادداشتوں میں مجیب الرحمان نے کئی ہندو شخصیات کا ذکر مُثبت انداز میں کیا ہے۔ اُن ہی میں سے ایک نارائن بابو تھے۔ نارائن بابو اسلامیہ کالج میں سائنس کے اُستاد تھے اور غریب طلبہ کی مدد کے لئے قائم فنڈ کے انتظام و انصرام کے ذمّہ دار تھے۔ حالانکہ نارائن بابو ہندو تھے اور اسلامیہ کالج کے تقریباً تمام طالبِ علم مسلمان، پھر بھی اُن کو یہ ذمّہ داری تفویض کی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک مثالی اُستاد تھے۔ وہ ہندو یا مسلم کی کوئی تمیز نہیں کرتے تھے۔
اُس وقت روزنامہ “آزاد” بنگالی زبان کا واحد اخبار تھا جو مسلم لیگ کی تائید کرتا تھا۔ لیکن کچھ اختلافات کی بنا پر وہ مجیب الرحمان اور اُن کے ساتھیوں کی خبریں شائع نہیں کرتا تھا۔ اس لئے اپنے پیغام کو پھیلانے کی خاطر اُن کو اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اُنھوں نے ہفت روزہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس اخبار کو مسلم لیگ کے دفتر کی نچلی منزل میں قائم کیا گیا۔ اخبار کا نام “ملّت” رکھا گیا۔ یہ اخبار مقبول ہوا اور ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد یہ اخبار پڑھتی تھی۔
1946 کے انتخابات میں بنگال مسلم لیگ کی شاندار فتح
1946 میں انتخابات ہوئے جس میں شیخ مجیب نے بڑھ چڑھ کر مُسلم لیگ کے لئے کام کیا۔ بنگال کی اسمبلی میں مسلمانوں کی 119 نشستیں تھیں۔ جب انتخابات کے نتائج آئے تو مُسلم لیگ نے 116 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انتخابات میں خواجہ ناظم الدین کے دھڑے کے زیادہ اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ مرکزی مسلم لیگ میں بھی شیخ مجیب کے مطابق لیاقت علی خان، خلیق الزماں، حسین امام، اور چندریگر، حسین شہید سُہروردی سے خائف تھے۔ شیخ مجیب کے مطابق سہروردی صاحب کے خلاف مُسلم لیگ میں در پردہ سازشیں ہوتی تھیں۔ مجیب الرحمان نے اپنی خود نوشت میں تذکرہ کیا ہے کہ 1937 کے انتخابات میں خواجہ ناظم الدّین کو شکست ہو گئی تھی۔ پھر حسین شہید سُہروردی نے، جنھوں نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اپنی ایک چھوڑی جانے والی نشست پر خواجہ ناظم الدّین کو جتوایا۔ لیکن اُس کے باوجود خواجہ ناظم الدّین درپردہ حسین شہید سُہروردی کے خلاف رہتے تھے۔ بنگال کی مسلم لیگ کی سیاست کے اس پہلو سے شاید بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔
اُس وقت ہندوستان کے گیارہ صوبے تھے۔ اُن میں سے چار مسلم اکثریتی صوبوں، بنگال، پنجاب، سندھ، سرحد میں سے صرف بنگال میں مسلم لیگ 1946 کے ہونے والے انتخابات میں بلا شرکتِ غیرے حکومت بنا پائی تھی۔ اُس وقت قائدِ اعظم نے دہلی میں 7 سے 9 اپریل کو مسلم لیگ کی مرکزی اور صوبائی کونسلوں کے ارکان کا کنونشن بلایا۔ بنگال اور آسام کے مسلمان اس کنونشن میں شرکت کے لئے ایک خصوصی ٹرین سے آئے جس کا انتظام حسین شہید سُہروردی نے کیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کنونشن میں شرکت کی۔
قراردادِ پاکستان میں ردوبدل
اس کنونشن میں قراردادِ پاکستان میں کچھ ردّ و بدل بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں خودمختار “ریاستوں” کا لفظ نکال کر “ریاست” کر دیا گیا۔ اس موقع پر مجیب الرحمان نے دہلی اور اُس کے اطراف موجود تاریخی مقامات کی سیر کی۔ اُس وقت انگریزوں نے ہندوستان کے مسئلے کے حل کے لئے کیبنٹ مشن کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق دفاع، خارجہ، اور اطلاعات کی وزارتیں وفاق کے پاس رہتیں جب کہ دیگر وزارتیں صوبوں کو واپس کر دی جاتیں۔ شروع میں مسلم لیگ اور کانگریس کیبنٹ مشن کے منصوبے کو تسلیم کرتی نظر آ رہی تھیں لیکن بعد میں کانگریس نے اس منصوبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
قائدِ اعظم نے 29 جولائی کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس بمبئی میں طلب کیا لیکن شیخ مجیب الرحمان مالی مُشکلات کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے۔ اجلاس میں قائدِ اعظم نے اعلان کیا کہ 16 اگست “راست اقدام کا دن” ہوگا۔ شیخ مجیب الرحمان نے اس دن کی مناسبت سے بنگال میں تقاریب مُنعقد کرنے کے انتظامات کیے۔ مسلم لیگ کی کوشش اُس دن کو پُر امن طور پر منانے کی تھی لیکن کلکتہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جھگڑے ہوئے جو فسادات میں تبدیل ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں انتظامیہ کو بالآخر کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ بے گھر ہوئے۔ ہندو اکثریت کے علاقوں سے مسلمانوں کو گھر چھوڑنا پڑے جب کہ مسلم اکثریت علاقوں سے ہندوؤں کو۔ شیخ مجیب کے بقول فسادات کے دوران بہت سے ہندوؤں نے مسلمانوں کو بچانے کے لئے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں اسی طرح مسلمانوں نے اپنے ہندو ہمسایوں کا خیال رکھا۔
شیخ مجیب الرحمان کے مطابق کلکتہ کی 1400 اہلکاروں پر مُشتمل پولیس میں مسلمانوں کی تعداد صرف 50 یا 60 تھی۔ مسلمان افسر بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس صورت میں سہروردی صاحب کے لئے حالات پر قابو پانا بڑا مشکل تھا۔ اُنھوں نے 1000 مسلمانوں کو پولیس میں بھرتی کروانے کی کوشش کی جس کا راستہ اُس وقت کے انگریز گورنر نے روکنے کی کوشش کی لیکن سہروردی صاحب پنجاب سے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد کو پولیس میں بھرتی کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ کلکتہ میں فسادات رکے ہی تھے کہ نواکھلی میں شروع ہو گئے۔ اُس کے بعد یہ سلسلہ ڈھاکہ میں بھی پھیل گیا اور ردِ عمل میں بہار میں بھی فسادات شروع ہو گئے۔ شیخ مجیب الرحمان نے ان تمام جگہوں پر مسلم لیگ کے رضاکار کے طور پر کام کیا۔ اس دوران مجیب الرحمان نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔
بنگال کی آزادی کا فارمولہ اور قائد اعظم کا اتفاق
3 جون 1947 کو اعلان ہوا کہ ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی ہوا کہ بنگال اور پنجاب کو بھی تقسیم کر دیا جائے گا۔ کانگریس نے اس کا خیر مقدم کیا جب کہ مسلم لیگ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی مخالف تھی لیکن بالآخر مسلم لیگ نے بھی اس منصوبے کو تسلیم کر لیا۔ اس سے بنگال اور آسام کے مسلمانوں میں بڑی مایوسی پھیلی۔ شیخ مجیب الرحمان مزید لکھتے ہیں کہ بنگال کانگریس اور مسلم لیگ نے ایک فارمولہ تیار کیا جسے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ بنگال ایک آزاد و خودمختار ریاست ہوگی۔ عوام ایک آئین ساز اسمبلی منتخب کرے گی جو یہ فیصلہ کرے گی کہ بنگال ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہوگا یا پھر آزاد رہے گا۔ یہ فارمولہ قائدِ اعظم اور مہاتما گاندھی کے سامنے پیش کیا گیا۔ سرت بوس نے یہ تحریر چھوڑی ہے کہ قائدِ اعظم نے اُن سے کہا تھا کہ اگر کانگریس یہ فارمولہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے تو مُسلم لیگ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کانگریس نے لیکن یہ فارمولہ تسلیم نہیں کیا۔
قائد اعظم کے گورنر جنرل بننے کے فیصلے کی تائید
شیخ مجیب الرحمان، قائدِ اعظم کے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بننے کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اُن کو شک تھا کہ پاکستان کے گورنر جنرل بننے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن اسے نقصان پہنچا سکتے تھے۔ بنگال کی تقسیم کے باوجود بھی بنگال کی آبادی پورے مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ بنگال وہ واحد صوبہ تھا جس میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور حسین شہید سُہروردی اُس کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ شیخ مجیب الرحمان کے مطابق پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پر حسین شہید سُہروردی کا حق تھا۔ لیکن سہروردی صاحب کے خلاف سازشیں شروع کر دی گئیں۔ بنگال کی تقسیم کے بعد مشرقی بنگال میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے۔ مجیب الرحمان نے اس میں مسلم لیگ کے کارکن کی حیثیت سے کام کیا۔ انتخابات کے نتیجے میں خواجہ ناظم الدّین وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے اور اُنھوں نے ڈھاکہ کو دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا۔ خواجہ ناظم الدّین اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈھاکہ چلے آئے اور اُنھوں نے مغربی بنگال کے مسلمانوں کے بارے میں لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں سوچا۔ اسی طرح بنگال کی تقسیم کے نتیجے میں بنگال کے اثاثوں کی جو تقسیم ہونا تھی خواجہ ناظم الدّین نے اُس طرف بھی کوئی توجّہ نہیں دی۔ نتیجتاً مشرقی بنگال کا جو جائز حق بنتا تھا وہ بھی اُسے نہیں مل سکا۔ جس طرح پنجاب کی تقسیم کے وقت کئی مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل کر دیے گئے تھے، اُسی طرح بنگال اور آسام کو تقسیم کرتے وقت بھی کئی مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل کر دیے گئے جن کا مجیب الرحمان کو کافی قلق رہا۔ اُن کو بنگال کی تقسیم کا اس وجہ سے بھی دکھ ہوا کہ اگر بنگال تقسیم نہیں ہوتا تو کلکتہ پاکستان کا دارالحکومت بنتا۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ میں سازشیں شروع
مجیب الرحمان کے مطابق قائدِ اعظم جب تک زندہ رہے کسی کو بھی کھلے عام سازش کی ہمّت نہیں ہوئی، لیکن جس دن اُن کا انتقال ہوا، اسی دن سے ملک بھر میں کھل کر سازشوں کی سیاست ہونے لگی۔ تقسیم کے وقت مہاتما گاندھی کے کردار کی شیخ مجیب نے تعریف کی ہے۔ تقسیم کے وقت بنگال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے حسین شہید سُہروردی نے مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر کام کیا۔ چونکہ مجیب الرحمان حسین شہید سہروردی کے ساتھ ہوتے تھے تو اُن کو مہاتما گاندھی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ شیخ مجیب الرحمان اور اُن کے ایک دوست یعقوب نے کلکتہ میں ہونے والے فسادات کی تصویریں کھینچی تھیں۔ اُنھوں نے اُن تصویروں کا البم بنا کر مہاتما گاندھی کو پیش کیا۔ بنگال کی تقسیم کے بعد کچھ عرصے تک حسین شہید سہروردی مغربی بنگال میں ہی رکے رہے حالانکہ اُن پر کئی بار حملے ہو چکے تھے۔ مجیب الرحمان بھی اُن کے ساتھ تھے لیکن بالآخر پاکستان (مشرقی بنگال) آ گئے اور ڈھاکہ چلے آئے۔ اس سے قبل وہ صرف دو بار ڈھاکہ آئے تھے اور ڈھاکہ کے راستوں سے ناواقف تھے۔ اب وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دینا چاہتے تھے اور قانون دان بننا چاہتے تھے۔
اُس وقت باریسال میں مسلم لیگ کے جلسے کا اہتمام کیا گیا جس سے شیخ مجیب الرحمان نے بھی خطاب کرنا تھا۔ لیکن جلسے کے دوران ہی اُن کو اپنے والد کی شدید علالت کی خبر ملی اور وہ جلسہ ادھورا چھوڑ کر اپنے والد کو دیکھنے چلے گئے۔
آل بنگال مسلم سٹوڈنٹس لیگ کا نام بدل کر آل ایسٹ پاکستان مسلم سٹوڈنٹس لیگ رکھ دیا گیا تھا۔ اس کی تنظیم سازی کی گئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد خواجہ ناظم الدّین نے مسلم نیشنل گارڈ کو تحلیل کرنے کے احکامات جاری کیے۔ مجیب الرحمان کے مطابق ایسا کر کے پاکستان کو ایک منظّم ادارے سے محروم کیا گیا۔ مسلم نیشنل گارڈز میں شامل لوگوں کے تعمیری جذبے سے کام اُٹھا کر پاکستان کے بہت کام لیے جا سکتے تھے۔ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر مسلم نیشنل گارڈز کو چلانے کا فیصلہ کیا لیکن حکومتِ وقت نے اسے اپنے خلاف سازش سمجھا۔ ایک مقامی رہنما ظہیر الّدین کو اس کا چیف بنا دیا گیا لیکن اُن کو ڈھاکہ پہنچتے ہی پبلک سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ اگرچہ کچھ عرصے بعد اُن کو رہا کر دیا گیا لیکن لوگ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ مجیب الرحمان نے محسوس کیا کہ مسلم لیگ کی حکومت آہستہ آہستہ کارکنوں سے دور ہو رہی ہے اور اُس کا دارومدار نوکر شاہی پر بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے لئے بہت کام کرنا تھے اور کرنے کے لئے بہت سے لوگ بھی موجود تھے لیکن اُن کی رہنمائی کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔
مشرقی پاکستان مسلم لیگ تحلیل لیکن مغربی پاکستان میں برقرار
قائدِ اعظم گورنر جنرل بن گئے تھے اس لئے چودھری خلیق الزّماں کو مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ نے مشرقی پاکستان مسلم لیگ کو تحلیل کر کے انتظام سنبھالنے کی ذمّہ داری ایڈہاک کمیٹی کے سپرد کر دی گئی۔ ایسا صرف بنگال میں کیا گیا جب کہ پنجاب کی تقسیم بھی عمل میں آئی تھی۔ شیخ مجیب کے مطابق اس کا مقصد بنگال مسلم لیگ میں خواجہ ناظم الدّین کے حمایتیوں کی اکثریت قائم کرنا تھا۔ اس عمل کے ذریعے مجیب الرحمان اور بہت سے مسلم لیگیوں کو تنظیم سے نکال دیا گیا۔
اردو، بنگالی تنازع
فروری 1948 میں کراچی میں پاکستان کی مجلسِ آئین ساز کا اجلاس ہو جس میں قومی زبان کا موضوع زیرِ بحث آیا۔ مسلم لیگ کے بیشتر ارکان، جن میں مشرقی پاکستان کے لیگی ارکان بھی شامل تھے، اُردو کو قومی زبان بنانے کے حق میں تھے۔ کومیلا کے کانگریسی رکن بابو دھریندر ناتھ دت نے بنگالی کو قومی زبان قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا کیونکہ آبادی کی اکثریت یہی زبان بولتی تھی۔ مسلم لیگی رہنما اس پر بالکل رضامند نہیں تھے۔ بنگالیوں کی طرف سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ اردو اور بنگلہ دونوں کو قومی زبانیں قرار دیا جائے۔ لیکن اس تجویز کو بھی نہیں قبول کیا گیا۔ مجیب الرحمان اُردو کو بطور واحد سرکاری زبان رائج کرنے کو بنگالیوں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ اُردو کو بطور واحد سرکاری زبان قرار دینے کے خلاف مشرقی پاکستان میں احتجاج شروع ہو گیا جس میں شیخ مجیب الرحمان نے بھی حصہ لیا اور گرفتار کر لیے گئے۔ حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ بنگالی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کی تحریک کو سہارا دینے کے لئے کلکتہ سے ہندو طلبہ آئے تھے لیکن مجیب الرحمان کے بقول جو ستّر پچھتّر طلبہ گرفتار ہوئے اُن میں سے ایک بھی ہندو نہیں تھا۔
اُردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے لئے ایک دلیل یہ دی گئی کہ اُردو اسلامی زبان ہے لیکن یہ بات اُن کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ اُردو اسلامی زبان کیسے بن گئی۔ شیخ مجیب الرحمان کے الفاظ میں: “دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمان مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ عرب کے لوگ عربی بولتے ہیں، ایران میں فارسی بولی جاتی ہے، ترکوں کی زبان ترکی ہے، انڈونیشیا کے لوگ انڈونیشی زبان بولتے ہیں، ملائیشیا کے لوگ ملائی زبان میں بات کرتے ہیں جب کہ چین کے مسلمان چینی بولتے ہیں۔ غرض مجیب الرحمان اور دوسرے بنگالی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ زبان کا مذہب کیسے ہو سکتا ہے۔
'قائد اعظم کو بنگالی زبان پر عوامی جذبات سے بے خبر رکھا گیا'
مجیب الرحمان سمجھتے ہیں کہ قائدِ اعظم کو زبان کے مسئلے پر بنگالی عوام کے جوش و جذبات سے بے خبر رکھا گیا اور اُن سے اُردو کو بطور واحد قومی زبان کے اپنانے کے لئے کہلوایا گیا۔ حقیقت کچھ بھی ہو زبان کے مسئلے کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے بیچ میں دراڑ آ چکی تھی۔ لسانی تحریک کے دوران مجیب الرحمان ایک سیاسی شخصیت کے زیادہ قریب ہو گئے۔ اُس شخصیت کا نام مولانا بھاشانی تھا۔ مولانا بھاشانی پیدائشی بنگالی ہیں لیکن اُنھوں نے اپنی سیاست کا آغاز 1919 میں آسام سے کیا۔ وہ شروع میں انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ ہوئے، خلافت تحریک میں بھی حصہ لیا۔ وہ 1937 میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1944 میں آسام کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ 1947 میں اُنھیں آسام میں گرفتار کیا گیا۔ 1948 میں رہائی ملنے پر وہ واپس مشرقی بنگال چلے گئے۔ بنگالی زبان کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں مولانا بھاشانی نے حصہ لیا۔
اس دوران قائدِ اعظم کی وفات ہوئی تو خواجہ ناظم الدّین گورنر جنرل اور نورالامین مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ بنائے گئے۔ جب تک قائدِ اعظم حیات تھے وہ طاقت کا سرچشمہ تھے۔ اُن کے بعد لیاقت علی خان کے پاس تمام اختیارات تھے۔ مجیب الرحمان کے مطابق لیاقت علی خان نے ملکی معاملات کو جمہوری انداز میں نہیں چلایا۔ رفتہ رفتہ مجیب الرحمان مسلم لیگ سے مایوس ہوتے چلے گئے۔ بنگال کے سیاست دانوں ابوالقاسم فضلِ حق، مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، مولانا راغب احسن جب کہ خواتین جن میں خیرات حسین، بیگم انورہ خاتون شامل تھیں نے مل کر نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی۔ اس جماعت کو “مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ” کا نام دیا گیا۔ مولانا بھاشانی کو اس جماعت کا صدر جب کہ مجیب الرحمان کو جوائنٹ سیکرٹری منتخب کیا گیا حالانکہ مجیب الرحمان ابھی جیل میں ہی تھے۔
لیاقت علی خان خود کو صرف مسلم لیگ کا وزیر اعظم سمجھتے تھے
عوامی مسلم لیگ کے قیام کے چند روز بعد ہی مجیب الرحمان کو رہا کر دیا گیا۔ ابتدا میں عوامی مسلم لیگ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے جلسوں کو کرائے کے غنڈوں کے ذریعے سبوتاژ کیا گیا۔ ابھی عوام میں عوامی مسلم لیگ کو ساکھ بنانے کے لئے بہت کام کرنا تھا۔ لوگوں کے اندر ابھی بھی مسلم لیگ کی کشش تھی۔ اس دوران حسین شہید سہروردی کلکتہ سے کراچی چلے گئے تھے۔ مجیب الرحمان تنظیم سازی میں لگے ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں کئی جگہ جلسے کیے گئے جس میں تصادم بھی ہوئے۔ مجیب الرحمان کے بقول مسلم لیگ کو عوامی لیگ کا قیام بالکل بھی گوارا نہیں تھا۔ اس دوران لیاقت علی خان بنگال تشریف لائے۔ اُنھوں نے جلسے میں اعلان کیا: “جس نے بھی عوامی لیگ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کی، میں اس کا سر توڑ دوں گا”۔ لیاقت علی خان حزبِ اختلاف کا وجود نہیں چاہتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلم لیگ کا وزیرِ اعظم سمجھتے تھے۔
مغربی پاکستان کا دورہ، فیض احمد فیض کی تائید
مجیب الرحمان، حسین شہید سُہروردی سے ملنے مغربی پاکستان گئے جو اُن دنوں لاہور میں تھے۔ وہاں اُن کی ملاقات فیض احمد فیض سے بھی ہوئی۔ فیض احمد فیض نے اُن کی بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کی حمایت کی۔ مجیب الرحمان چاہتے تھے کہ مغربی پاکستان کے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کر عوامی لیگ کا دائرہ پورے پاکستان تک بڑھایا جائے۔ اُنھوں نے اس سلسلے میں مغربی پاکستان کی کئی شخصیات سے ملاقات کی۔ مجیب الرحمان کو اُردو یا پنجابی نہیں آتی تھی اس لئے اُنھوں نے اکثر جگہ انگریزی میں تقریر کی۔ بعض جگہوں پر اُن کی تقریر کا ترجمہ کیا گیا۔ وہاں اُن کی اخباری نمائندوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ اُن کے بارے میں اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئیں۔ اُنھوں نے محسوس کیا کہ اُن کی نگرانی کی جا رہی تھی۔ مغربی پاکستان میں تقریباً ایک ماہ گزارنے کے بعد اُنھوں نے مشرقی پاکستان جانے کا ارادہ کیا۔
وہ پہلے دہلی گئے اور وہاں سے ریل کے سفر کے ذریعے مشرقی بنگال پہنچے۔ اُنھیں خدشہ تھا کہ اُنھیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ وہ گرفتاری سے نہیں ڈرتے تھے لیکن اس سے پہلے وہ اپنے گھر والوں سے ملنا چاہتے تھے۔ وہ کسی نا کسی طرح پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ گھر والوں کے ساتھ کچھ دن گزارنے کے بعد وہ واپس اپنے ساتھیوں سے آ ملے۔ وہ عارضی طور پر اپنے کسی دوست کے گھر رہ رہے تھے کہ کسی کی مخبری کی وجہ سے پولیس کو اُن کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم ہو گیا اور پولیس نے اُن کو گرفتار کر لیا۔ اُن سے اُن کے مغربی پاکستان کے دورے کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔ اُن کو ڈھاکہ جیل بھیج دیا گیا۔ اُن کے ساتھ مولانا بھاشانی بھی قید تھے۔ پاکستان بننے کے بعد دو سال کے اندر اُن کو تین دفعہ جیل بھیجا جا چکا تھا۔ جیل میں اُنھوں نے مولانا بھاشانی کو اپنے مغربی پاکستان کے دورے کے بارے میں بتایا۔ مجیب الرحمان کے مطابق حکومت کے سیاسی مخالفین پر بدترین تشدد کیا جا رہا تھا۔ وہ افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ایسا لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہو رہا تھا جو جمہوریت کے نام لیوا تھے۔ اُن کے مطابق سیاسی قیدیوں پر اتنا تشدد کیا گیا کہ اُن میں سے بعض اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور بعض عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں،
“محمد علی جناح کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان نے تمام اختیارات کا مالک بن کر ملک میں خوف و دہشت کی حکمرانی قائم کر دی تھی۔”
کراچی کو دارالحکومت بنانے پر مشرقی پاکستانیوں نے اعتراض نہیں کیا
لیاقت علی خان عوامی لیگ کے منشور پر بھی برہم تھے، جس میں مکمل خود مختاری پر زور دیا گیا تھا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی میں مشرقی بنگال کے ارکان کی تعداد 44 تھی۔ پنجاب، سندھ، سرحد، اور بلوچستان سے 28 ارکان تھے۔ مشرقی پاکستان کی 44 نشستوں میں سے 6 نشستوں پر مغربی پاکستان کے باشندوں کو منتخب کروایا گیا تھا جب کہ بنگالیوں کی اکثریت ہونے کے باوجود کراچی کو دارالحکومت بنایا گیا جس پر مشرقی پاکستان کے اسمبلی کے ارکان یا عوام نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن جب اُنھوں نے یہ دیکھا کہ تمام صنعتی ترقّی مغربی پاکستان میں ہی ہو رہی ہے تو وہ اس طرف متوجہ ہوئے۔
اپنی خود نوشت میں مجیب الرحمان نے لیاقت علی خان پر الزام لگایا ہے کہ وہ بنگالی اور پنجابی ارکانِ پارلیمنٹ کے درمیان تفرقہ ڈال کر حکومت کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ خود مہاجر تھے۔ وہ بیوروکریسی پر زیادہ انحصار کرتے تھے جن کی اکثریت مغربی پاکستان کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ 1950 میں ڈھاکہ میں تمام جماعتوں کی طرف سے گرینڈ نیشنل کنونشن منعقد کیا گیا۔ اس کے ایک نمائندہ وفد نے لیاقت علی خان کی ڈھاکہ آمد پر اپنے مطالبات سے اُن کو آگاہ کیا۔ لیاقت علی خان نے خودمختاری کا مطالبہ رد کر دیا۔
بیوروکریسی کی طاقت کو حد سے بڑھا دینے والا فیصلہ
اس دوران حسین شہید سہروردی مغربی پاکستان میں سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ غلام محمد، جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا، قیامِ پاکستان سے قبل سرکاری ملازم تھے۔ جناح صاحب کے انتقال کے بعد اُنھیں وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا۔ اس سے پاکستان میں نوکر شاہی (bureaucracy) کو کافی طاقت ملی۔
اس دوران مجیب الرحمان کو جیل سے رہا کیا گیا لیکن رہا کرتے ہی اُن کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ حکمران مجیب الرحمان، مولانا بھاشانی اور دوسرے بنگالی رہنماؤں کی لسانی تحریک سے خائف تھے اس لئے اُن کو طویل عرصے تک کسی نا کسی بہانے سے جیل میں رکھنا چاہتے تھے۔ مجیب الرحمان نے اپنی خود نوشت میں چند بنگالی ہندو رہنماؤں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے، بلا تفریق ہندوؤں اور مسلمانوں کے کام آتے تھے۔ اُن میں ایک نام چندرا گھوش کا بھی ہے۔ اُنھوں نے کافی سکول تعمیر کروائے، ایک ڈگری کالج بھی قائم کروایا، نہریں کھدوائیں، سڑکیں بنوائیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اُن کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر سزا دے دی گئی۔ جیل میں جب مجیب الرحمان بیمار پڑے تو گھوش بابو نے اُن کا بہت خیال رکھا۔ مجیب الرحمان کو بنگال کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا جس میں ڈھاکہ کی جیل شامل تھی۔
مجیب الرحمان نے مسلم لیگ کے ایک کارکن محی الدّین کا ذکر بھی کیا ہے جو مسلم لیگ میں مجیب الرحمان کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور کئی موقعوں پر اُن کی مخالفت کی تھی۔ مجیب الرحمان کے مطابق محی الدین تحریکِ پاکستان کے بہترین کارکن تھے۔ اُن کو بظاہر فرقہ ورانہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اُن کا یہ کہنا تھا کہ مسلم لیگ میں دو گروپ بن گئے تھے اور وہ نورالامین کے مخالف گروپ میں تھے۔ اس وجہ سے وہ مسلم لیگ سے بددل ہو گئے تھے۔ جیل میں مجیب الرحمان کی محی الدّین سے دوستی ہو گئی حالانکہ اُن کو پتہ چلا تھا کہ محی الدّین نے حسین شہید سُہروردی کے خلاف لیاقت علی خان کے کان بھرے تھے۔
لیاقت علی خان سے اختلاف کے باوجود ان کے قتل نے شیخ مجیب کو افسردہ کر دیا
مجیب الرحمان، مولانا بھاشانی کے ساتھ ابھی جیل میں ہی تھے کہ 1951 میں اکتوبر کے مہینے میں لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے میں گولی مار دی گئی۔ مجیب الرحمان سمجھتے تھے کہ لیاقت علی خان اُسی سازشی سیاست کا شکار ہو گئے تھے جس کی اُنھوں نے شروعات کی تھی۔ حالانکہ لیاقت علی خان کے حکم پر ہی وہ جیل میں تھے لیکن اُن کو لیاقت علی خان کی موت نے افسردہ کر دیا تھا۔
لیاقت علی خان کی موت کے بعد خواجہ ناظم الدّین پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے۔ اُنھوں نے ایک اعلیٰ سرکاری افسر، چودھری محمد علی کو وزیرِ خزانہ بنا لیا۔ اور غلام محمد جو اُس وقت وزیرِ خزانہ تھے اُن کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ اس طرح حکومتی اُمور میں بیوروکریسی کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ میں دو گروپ بن گئے تھے۔ ایک پنجابی اور دوسرا بنگالی گروپ۔ وزیرِ اعظم بننے کے بعد خواجہ ناظم الدّین جب مشرقی پاکستان آئے تو اُنھوں نے اُردو کو ہی واحد قومی زبان بنانے کا اعلان کیا۔ یہ خواجہ ناظم الدین کی طرف سے اُن کے پچھلے تمام دعوؤں کی نفی تھی۔ اُنھوں نے تحریری معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا تھا تھا کہ بنگلہ مشرقی بنگال کی سرکاری زبان ہوگی اور وہ قومی اسمبلی میں بھی مرکزی حکومت سے بنگلہ کو قومی زبان بنانے کی درخواست کریں گے۔ لیکن وزیرِ اعظم بننے کے بعد وہ بدل گئے۔
بھوک ہڑتال، جیل سے رہائی اور مسلم لیگ کے بیہودہ الزامات
مجیب الرحمان کو جیل میں 26 مہینے ہو گئے تھے۔ اس دوران اُن کی آنکھوں کا اور دل کا علاج بھی ہوا تھا۔ اُنھوں نے اپنی رہائی کے لئے بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ 21 فروری کو قومی زبان کا دن منانے کا فیصلہ ہوا۔ اُس دن احتجاج ہوا، ریلیاں نکالی گئیں۔ مظاہرین پر فائرنگ کی گئی اور کئی لوگ اس میں ہلاک ہوئے۔ کچھ دن بعد مجیب الرحمان کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن اُن کی صحت بہت گر گئی تھی۔ جب وہ گھر پہنچے تو اُن کی بیوی نے اُن کے بھوک ہڑتال کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اُن کو تقریباً ایک مہینہ اپنے گھر پر گزارنا پڑا۔ بظاہر بنگالی زبان کی تحریک کو کچلا جا چکا تھا لیکن یہ چنگاری ابھی بجھی نہیں تھی۔ کچھ عرصہ بعد اپنے دوست کے بلانے پر وہ ڈھاکہ چلے گئے۔ ڈھاکہ میں نواب پور میں عوامی لیگ کا دفتر قائم کیا گیا۔ زبان کے مسئلے پر چلائی جانے والی تحریک کو جس طرح دبایا گیا تھا لوگ خوفزدہ ہو گئے تھے اور عوامی لیگ کے دفتر آنے سے بھی کتراتے تھے۔ مسلم لیگ کی حکومت یہ الزام لگا رہی تھی کہ ان مظاہروں میں کلکتہ کے ہندو طلبہ نے پائجامے پہن کر اور مسلمانوں کا روپ دھار کر شرکت کی ہے۔ مجیب الرحمان نے مسلم لیگ کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ سے مرنے والے 5 یا 6 طالبِ علم مسلمان تھے اور گرفتار شدگان میں 99 فیصد مسلمان تھے۔
عوامی لیگ کا دائرہ مغربی پاکستان تک پھیلانے اور حسین شہید سہروردی کو پارٹی میں لانے کا فیصلہ
عوامی لیگ نے یہ طے کیا کہ مجیب الرحمان خود مغربی پاکستان جا کر وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدّین سے ملاقات کر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ حسین شہید سہروردی بھی اُن دنوں مغربی پاکستان میں تھے۔ مجیب الرحمان اُن سے بھی ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ اُس وقت عوامی لیگ پنجاب، سرحد، سندھ اور کراچی میں بھی قائم ہو چکی تھی لیکن اس کا نام جناح عوامی مسلم لیگ رکھا گیا تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی ورکنگ کمیٹی اس بات پر متّفق نہیں تھی کہ پارٹی کے نام میں کسی شخصیت کا نام استعمال کیا جائے اور اُنھوں نے اپنی جماعت کا نام تبدیل نہیں کیا۔
مجیب الرحمان کراچی میں عوامی لیگ کے ارکان سے ملے اور اُن کے اجلاس سے خطاب کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُنھوں نے انگریزی میں تقریر کی۔ وہ اُردو میں تقریر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اُن کی پارٹی کے مغربی پاکستان کے ارکان نے اُن سے کہا کہ اُنھیں ایک پریس کانفرنس بلا کر مشرقی پاکستان کے حقائق کے بارے میں مغربی پاکستان کے لوگوں کو معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔ وہ کراچی میں خواجہ ناظم الدّین سے بھی جا کر ملے اور اُن کے سامنے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ دہرایا اور مشرقی پاکستان میں لوگوں پر ہونے والے تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
مغربی پاکستان کا ایک انتہائی کامیاب دورہ
مجیب الرحمان سے ملاقات میں خواجہ ناظم الدّین نے عوامی لیگ کو حزبِ اختلاف کی جماعت کے طور پر تسلیم کیا۔ مجیب الرحمان نے اخباری نمائندوں کے ساتھ دو گھنٹے کی پریس کانفرنس کی اور اُن کو مشرقی پاکستان کے لوگوں کے مطالبات سے آگاہ کیا۔ “پاکستان ٹائمز”، اور “امروز” اخبارات نے اُن کی پریس کانفرنس کو نمایاں جگہ دی۔ وہاں اُن کی ملاقات پرانے مسلم لیگی کارکنوں سے بھی ہوئی۔ وہ حسین شہید سُہروردی سے ملنے کراچی سے حیدرآباد بھی گئے جو ایک مقدمے کی وکالت کے سلسلے میں وہاں مُقیم تھے۔ مجیب الرحمان یہ چاہتے تھے کہ حسین شہید سُہروردی عوامی لیگ کی سربراہی کریں لیکن سُہروردی صاحب جناح عوامی مسلم لیگ میں شامل تھے اور مجیب الرحمان سیاسی تنظیم کے ساتھ کسی شخصیت کے نام کو لگانے کے خلاف تھے۔ مجیب الرحمان نے حسین شہید سُہروردی کو عوامی لیگ کی سربراہی کرنے پر راضی کر لیا اور اُن کا تحریری پیغام بھی لیا جو اُنھوں نے مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنا تھا۔ سہروردی صاحب نے مجیب الرحمان سے وعدہ کیا کہ مقدّمہ ختم ہونے کے بعد وہ مشرقی پاکستان کا دورہ کریں گے۔
مجیب الرحمان نے واپسی براستہ لاہور رکھی۔ لاہور میں بھی اُن کو پریس کانفرنس کرنے کا کہا گیا۔ وہاں اُنھوں نے علامہ اقبال کے مزار پر بھی حاضری دی اور “جاوید منزل” میں بھی کچھ وقت گزارا۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو خوش قسمت محسوس کیا کہ اُن کو اُس مکان میں رہنے کا موقعہ ملا جس میں علامہ اقبال نے غور و فکر کرتے ہوئے اپنا وقت گزارا تھا۔ اس سے پہلے اُن کی حمید نظامی سے شناسائی ہوئی ہو