قسط نمبر 1 اور 2 لکھنے کے بعد تک میرے پاس جمبر، پھول نگر، پتوکی، چونیاں، الہ آباد، تلونڈی، کھڈیاں، ہنجروال، کنگن پور اور دیگر علاقوں سے بہت سے میسجز آئے جن میں کتنے ہی نوجوانوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے علاقے میں یہ گھناؤنا فعل اپنی پوری طاقت سے جاری ہے۔ یہ کیسی عجیب و غریب بات ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہم سب یوں انجان بنے ہیں کہ قصور ہی کیوں؟ لیکن یہاں ایک سوال اور بھی اٹھتا ہے کہ ایسا کم یا زیادہ پاکستان کے دیگر ضلعوں میں بھی ہوتا ہے، تو قصور سے ہی ایسے واقعات کیوں سامنے آتے ہیں۔
اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ساحل پاکستان کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں اوسطاً روزانہ 10 بچوں کا ریپ کیا جاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ان کیسز کے ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں۔ 2018 میں بچوں سے ریپ کے 3،832 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جبکہ 2017 میں یہ تعداد 3،445 تھی۔ ان واقعات میں ریپ کے ساتھ ساتھ ویڈیو بنانے کے واقعات کی شرح محض 3 فیصد تھی۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی ڈارک ویب تھیوری صرف ایک ذہنی اختراع ہے۔ ریپ کے یہ واقعات کوئی منظم گروہ نہیں کرتا بلکہ یہ واقعات معاشرے میں پھیلی جنسی ہیجانیت کے انفرادی واقعات ہیں اور ان کا کسی سازشی تھیوری سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہمارے لوطی معاشرے میں پھیلا ایک کڑوا سچ ہے جس سے آنکھیں چرانے اور سکون پانے کے لیے جتنی بھی تھیوریز قائم کر لی جائیں مسئلہ وہیں رہے گا۔ جب تک کہ ہم اپنے معاشرے کی اس تاریک سچائی کا سامنا کرنے اور اپنے گلی محلوں اور اپنے اردگرد پھیلے جنسی درندوں کا مقابلہ کرنے کو بطور معاشرہ تیار نہ ہوں۔ جب تک ہم اپنے بچوں کی ان حساس معاملات پر تربیت اور ان کی مدد کو تیار نہ ہوں اور جب تک ہم اس موضوع پر بات کرنے اور اس برائی کا قلع قمع کرنے کو تیار نہ ہوں۔
سازشی تھیوریز پاکستان میں ہر مشکل مسئلے کے حل کا مشہور طریقہ ہیں۔ جیسا کہ معیشت کا بیڑا غرق آئی ایم ایف نے کیا، ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے کیا اور ہمیں مذہب سے دور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے کیا۔ سازشی تھیوریز کا مقصد کسی بھی مسئلے کے حل سے آنکھیں چرانے، اسے حل کرنے کی کوششوں سے روگردانی کرتے ہوئے اس کی ایسی توجیح پیش کرنا ہے کہ مسئلہ تو موجود رہے لیکن تھیوری کی مدد سے اس کی وجہ تلاش کر لی جائے۔ اور وجہ ایسی ہو کہ معاشرے اور عوام الناس کے اختیار میں اسے روکنا نہ ہو، تو پھر مسائل بڑھتے رہتے ہیں اور سب تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہمارے ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تو سب سے پہلے میں ڈارک ویب اور پورن ویڈیوز کی تھیوری پر بات کر لوں۔ حسین خاں والا کیس جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں 280-300 لڑکوں کی ریپ ویڈیوز پر مشتمل تھا۔ اگر سازشی تھیوری سچ ہے تو پھر یہ ریپ ویڈیوز کسی ڈارک ویب، کسی پورن سائٹ پر موجود کیوں نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ وہی گند ہے جس کی طرف میں نے اپنی پہلی دو قسطوں میں اشارہ کیا تھا۔ "کانا" کرنے کی لگن۔ اور اسی لگن میں ایک جانب سے جب ویڈیو بنی تو دوسری جانب سے بھی ان کے سیاسی مخالفین نے ویڈیوز بنائیں۔ انتقامی ویڈیوز کا یہ سلسلہ پھیلتا پھیلتا 300 تک پہنچ گیا یہاں تک کہ یہ لاوا پھٹ گیا اور حسین خاں والا کیس لائم لائٹ میں آ گیا۔ لیکن کیا ایسا صرف حسین خاں والا میں ہوتا ہے نہیں۔ ایسا پاکستان کے ہر شہر، محلے اور گاؤں میں ہوتا ہے۔ ویڈیوز نہیں بنتیں یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن صرف سال 2018 میں بچوں سے زیادتی کے 3،832 رپورٹڈ واقعات اس جانب اشارہ ضرور کرتے ہیں کہ 300 بچوں سے ریپ معمولی سی بات ہے ہم 4000 کے قریب بچوں سے ریپ کرتے ہیں اور پھر بھی شرم کھانے کی بجائے سازشی تھیوریز کا سہارا لیتے ہیں۔
سازشی تھیوریز پیش کرنے والوں سے میرا ایک اور سوال بھی ہے۔ زینب اور 8 بچیوں کے قاتل عمران نے کیا کسی ریپ کی کوئی ایک ویڈیو بھی بنائی تھی۔ میرا پنجاب پولیس میں ایک اپنا نیٹ ورک ہے۔ میرے ذرائع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 23 جنوری 2018 کو دن 2:29 منٹ پر جب میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر زینب کے قاتل کی تصاویر شائع کی تھیں تو پورے پاکستان میں کسی میڈیا ہاؤس کے پاس یہ خبر اور تصاویر نہیں تھیں سوائے تفتیشی جے آئی ٹی کے۔ مجھے زینب کے قاتل عمران سے خود بات کرنے کا موقع بھی ملا جب وہ زیر تفتیش تھا۔ جب اس کا ڈی این اے زینب اور دیگر 5 لڑکیوں سے میچ کر گیا تھا (پولیس کے پاس 5 سمپل تھے) تو وہ پوری کہانی سنانے لگا تھا۔ اس کے موبائل کو پوری طرح کھنگالا گیا اس کے موبائل سے کسی فعل کی ایک ویڈیو بھی نہ ملی تھی۔ نہ ہی کبھی اس نے بنائی۔ حالانکہ ان دنوں ڈاکٹر شاہد کی سازشی تھیوری بہت عام تھی تو تفتیشی ٹیموں نے ہر حربہ آزمایا۔ عمران بچیوں سے زیادتی اور پکڑے جانے کے خوف سے قتل مانتا تھا لیکن ویڈیو کی بات نہ اس نے کبھی مانی اور نہ ہی تفتیشی ایجنسیوں کی کبھی نظر میں آئی۔
چونیاں کے واقعہ میں بھی یہی مسئلہ کارفرما رہا۔ جنسی درندگی اور پکڑے جانے کے خوف سے قتل۔ جنسی درندگی بچوں سے کیوں؟ کیوں کہ بچے سب سے آسان شکار ہیں اور میں نے پہلی دو قسطوں میں واضح کیا ہے کہ وہ آسان ترین شکار کیسے ہیں۔ قتل کیوں؟ کیوں کہ جب یہ عمل معصوم بچوں پر کیا جائے تو اس بات کے چانسز موجود رہتے ہیں کہ ڈرانے دھمکانے کے باوجود بچے اپنے گھر جا کر سچ اُگل سکتے ہیں۔ زینب اور دیگر 8 بچیاں اور چونیاں کے 4 بچے دراصل اسی وجہ سے قتل کیے گئے۔ یہ تمام واقعات علیحدہ ہیں۔ ان کی کوئی کڑیاں نہیں اور یہ ان علاقوں میں موجود علیحدہ علیحدہ درندوں کی ذاتی کاروائیاں ہیں جن کے آپس میں ربط جوڑنے کی کوشش سوائے بے وقوفی، اصل مسئلے سے پہلو تہی اور معاشرتی برائی کو چھپا کر ایک سازشی تھیوری کے حوالے کرنے کی سعی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔