فیصل آباد میں رکشا ڈرائیور کی 8 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی

فیصل آباد میں رکشا ڈرائیور کی 8 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی
فیصل آباد کے علاقے گوکھووال میں رکشا ڈرائیور نے 8 سالہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، بچی ٹیوشن سے واپس گھر جارہی تھی کہ اسے گھسیٹ کر اپنے گھر لے گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فیصل آباد میں 8 سالہ بچی ٹیوشن سینٹر جا رہی تھی کہ درندہ صفت رکشا ڈرائیور راشد نے بچی کو پکڑ لیا اور گھسیٹ کر اپنے گھر لے گیا جہاں اس نے بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

تھانہ ملت ٹاؤن پولیس نے 25 سالہ ملزم راشد کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم راشد نے بچی کے ساتھ درندگی کی اس کے بعد چھت پھلانگ کر اپنے بھائی کے گھر چھپ گیا جب کہ بچی کو میڈیکولیگل کے لیے الائیڈ ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں اوسطاً روزانہ تقریباً سات بچے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے بچے بچیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ مگر قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں آج بھی اس موضوع پر کھل کر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'ساحل‘ کی ترجمان سدرہ ہمایوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت ہولناک صورت میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ گذشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں 13 سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

جنسی زیادتی سے متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کی مشاورت کرنے والی تنظیم 'روزن‘ کے مطابق ضروری ہے کہ ایسے معاملات میں والدین، سکول، مدرسے، اساتذہ اور وہ تمام ادارے اور افراد جو بچوں سے رابطے میں ہوتے ہیں، انہیں بتایا جائے کہ بچوں کے حقوق کیا ہیں اور یہ کہ بچوں کے تحفظ کی ذمہ داری سب کا مشترکہ فرض ہے۔

روزن کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو والدین کو پتا ہونا چاہیے کہ انہیں بچے کو نہلانا نہیں چاہیے ہے، اس کا لباس دھونا نہیں چاہیے، تا کہ پولیس کارروائی کے دوران کپڑے بھی ثبوت کے طور پر استعمال ہو سکیں۔

روزن کی ترجمان کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ 'زینب الرٹ بل‘ کی منظوری کے بعد بہتر نتائج سامنے آسکیں گے، کیوں کہ اس بل کے تحت ایسا کوئی بھی واقعہ جب رپورٹ ہو گا، تو پولیس، پیمرا اور مختلف ایجنسیوں کو فوری طور پر رپورٹ موصول ہو جایا کرے گی اور مشترکہ کارروائی کی جا سکے گی۔