مومنہ مستحسن نے مائیکرو بلاگنگ وی سائٹ ٹوئٹر پر نور مقدم کیس پر ہونے والی تحقیقات پر اظہارِ برہمی کیا ہے۔
اُنہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ’ ظاہر جعفر کے وکیل نے نور کے والد سے دورانِ سماعت پوچھاکہ آپ نے بطور سفیر اس ملک کے لیےخدمات انجام دیں، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئےبتائیں کہ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مرد اور عورت کا بغیر رسمی تعلق کے تعلق رکھنا جائز ہے؟‘
#ZahirJaffer’s lawyer to Noor’s father(during the trial of her barbaric murder): “you’ve served as an Ambassador for this country. Keeping that in mind, in the Islamic republic of Pakistan is it permissible for a man & woman to have an association without a formal relationship?” https://t.co/m6VBOj565c
— Momina Mustehsan (@MominaMustehsan) January 22, 2022
اس سوال پر مومنہ مستحسن نے لکھا کہ ’اس سے زیادہ متعلقہ سوال وہ اپنے کلائنٹ کے والد سے پوچھ سکتے تھے کہ آپ تھراپی کا کاروبار چلاتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ آپ نے اپنے بیٹے کی ذہنی بیماری کو بہانہ بناتے ہوئے عدالت سے اس کی رہائی کی درخواست کی تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اپنے آس پاس کسی ایسے مریض کو چھوڑ دینا محفوظ ہے؟‘
More relevant to ask his clients father: u run & profit from a therapy business. Keeping that & ur sons mental illness in mind (pleading insanity),do u think it was safe to let anyone around him? Let alone facilitating holding Noor in the premises of ur property against her will?
— Momina Mustehsan (@MominaMustehsan) January 22, 2022
Its the 21st century,yet so many seemingly educated people use patriarchy & misogyny to discredit women & shame fathers when it comes to justifying their sons barbaric actions. Never any accountability of how many women their sons harass, violate or abuse (mentally or physically)
— Momina Mustehsan (@MominaMustehsan) January 22, 2022
مومنہ مستحسن نے مزید لکھا کہ’یہ 21 ویں صدی ہے اور ابھی تک بہت سارے تعلیم یافتہ لوگ اپنے بیٹوں کی وحشیانہ حرکتوں کو درست ثابت کرنے اور خواتین کو بدنام کرنے میں لگے رہتے ہیں‘۔
اُنہوں نے مزید لکھا کہ ’ ایسے لوگوں کے بیٹے کتنی خواتین کو ہراساں کرتے ہیں، ان کے ساتھ ذہنی یا جسمانی طور پر بدسلوکی کرتے ہیں، اُن کا کبھی کوئی حساب کتاب نہیں کرتا‘۔