سرکاری پستول یا ایل ایم جی کی نوک پہ بے گناہ کا نام بدل کے نسیم اللہ، حبیب اللہ، کریم اللہ رکھ کر شوٹنگ رینج پہ کھڑا کرکے مارنا، تڑپتے جسم کی آہٹ کو اگر شوٹر محسوس نہیں کرتا تو کم از کم انصاف گھر کا فاضل جج ایک بار تو محسوس کرے۔
کچھ سال پہلے اسی ایس پی صاحب کو کسی جج نے فردِ جرم سنائی تھی اور سال گزر گئے، انصاف تاخیر کا شکار ہوتا رہا، تاریخ پہ تاریخ کی فہرستیں بنتی رہیں اور آخر کار ایک دن ایسا بھی آیا ہے کہ جج کا فیصلہ ہی الٹا پڑ گیا۔ فردِ جرم ختم ہوئی۔ جو بے گناہ تھا، گنہگار بن گیا اور گنہگار بے گناہ۔ دلیل صرف نسیم اللہ تھا اور مؤقف یہ کہ نقیب محسود ایک فرضی نام۔ ان کا کاروبار بھی فرضی اور اصل نام نسیم اللہ اور کاروبار، دھندہ یا جرم دہشت گردی۔
یہ دلیلیں وہی راؤ انوار سنا رہے ہیں جن پر درجنوں بے گناہ لوگوں کے انکاؤنٹر کا الزام ہے اور یہ دلیلیں انصاف گھر کے اُن فاضل ججوں کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں جنہیں نقیب کا بھی پتہ ہے اور انوار کا بھی۔ لیکن شاید انہیں راؤ انوار پہ لگی فردِ جرم کا ذرا سا بھی علم نہیں۔
اب مجھے یہ نہیں پتہ کہ یہ فیصلہ پولیس کی دیانت داری پر کتنا اثر چھوڑے گا۔ لیکن اس تاخیر، مہنگے اور اُلٹے انصاف کے اثرات اُس بزرگ باپ پہ اتنے بھاری پڑیں گے جیسے زمین کی لرز جو سب کچھ تباہ کر دیتی ہے۔ یہ فیصلہ انصاف کیلئے سرگرداں نوجوانوں کو دلبرداشتہ کر دے گا۔ نقیب کو انصاف دلانے کی انتھک کاوشوں کا جواب یہ سمجھیں گے تو سوچیں کیا محسوس کریں گے، کیا اثر لیں گے، کیا امید رکھیں گے اس نظام سے جس پر چھائی دھند ختم ہونے کو نہیں آ رہی؟
منظور پشتین کی پشتون تحفظ موومنٹ کا پہلا شہید نقیب تھا جس کے ناحق قتل کے بعد ایک قوم متحد ہوئی جو اب ہر نئے محسود کے ناحق خون، بد امنی اور انصاف کی ایک بلند آواز ہے جو مشکلوں کا سامنا کر رہی ہے۔ کئی کارکنوں کو کھو بیٹھی ہے۔ ایف آئی آر، بلیک لسٹ، ای سی ایل، غداری کے سرٹیفکیٹ اور میڈیا بلیک آؤٹ سمیت کن کن مراحل سے نہیں گزری ہے۔ اب وہ اپنی محنت کا نتیجہ یہی عدالتی فیصلہ سمجھ لیں تو کیا محسوس کریں گے۔
اب کی بار پشتون قوم بلیک ٹاپ روڈ پہ جا رہی ہے جس پر تاحدِ نگاہ صرف دھند ہے اور کچھ نہیں۔ اور یہی دھند مایوسی ہے۔ مہنگے انصاف سے شاید پھر بھی کوئی امید رکھی جا سکتی ہے مگر تاخیر سے ملنے والے اور الٹے انصاف سے اب کون اور کس طرح کی امید باندھے گا؟
اب کیا انصاف گھر کے ہاں یا پولیس ریکارڈ میں ہر وہ پشتون فرضی نام رکھتا ہے جو کراچی میں حمّالی کرتا ہے، دکان دار ہے، ٹرک ڈرائیور ہے، ٹرانسپورٹر ہے یا ریڑھی بان ہے؟ پولیس ریکارڈ کے ساتھ ساتھ کیا نادرا میں بھی یہ اپنا فرضی نام لکھواتے ہیں، فرضی ولدیت، فرضی مقام، فرضی کاروبار یا پھر فرضی خاندان؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب کا خون کیوں اور کیسے فرضی نکلا اور عدالت نے کیوں مان لیا؟
شاید میری کم اندیشی ہے کہ زندگی میں پہلی بار کسی دہشت گرد کو سوشل میڈیا سٹار بنتے دیکھا ہے۔ ہر جگہ بلا جھجک اپنی تصاویر اپلوڈ کرتے دیکھا ہے اور نقیب شاید پہلے دہشت گرد تھے جو ماڈل بننے کا خواب دیکھتے تھے جو ادھورا رہ گیا۔ کیا ان کی چہل پہل، لباس کی نمائش، سٹائل یا کالا چشمہ دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں؟ ہم نے تو یہ سنا ہے کہ دہشت گرد کی شناخت کے لئے خاکے اس لیے بنتے ہیں کیونکہ دہشت گرد کی تصاویر، حلیہ، قد کاٹھ کسی کو معلوم نہیں ہوتے۔
چلیں اس مہنگے، الٹے اور تاخیری انصاف سے یہ تو پتہ چلا کہ راؤ انوار اور انصاف گھر کا دہشت گرد آزاد گھومتا تھا اور اب انوار آزاد ہے۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔