آج جو کچھ لکھ رہا ہوں دل سے لکھ رہا ہوں کیونکہ کچھ دن قبل ایک خبر نے میری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ خبر کچھ یوں ہے کہ سندھ کی ایک رہائشی عورت جس کا نام قرة العین عینی ہے اور جس کی عمر لگ بھگ 34 سال تھی اور وہ چار معصوم بچوں کی ماں تھی، اسے اس کے وحشی شوہر نے تشدد کر کر کے مار دیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ رپورٹ کے مطابق اس کو لوہے کے راڈ سے مارا گیا جس سے اس کی گردن کی ہڈی اور ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی، ناک اور جسم کے باقی حصوں سے زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے ہزاروں واقعات روز ہو رہے ہیں اور کئی بیٹیاں اس وحشی پن کا شکار بن چکی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس گھریلوں تشدد کو کیسے روکا جائے؟ اس کے تین حل ہیں، اگر ان تین چیزوں پر عمل شروع ہو جائے تو گھریلوں تشدد بہت حد تک کم ہو جائے گا۔
نمبر ایک: اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی جائے۔ مطلب ان کو اپنی بیوی اور شوہر کے ساتھ برتاؤ کیسے کرنا ہے سکھایا جائے۔ مرد کو یہ سکھایا جائے کہ بیوی تمہاری پراپرٹی نہیں ہے بلکہ تمہاری لائف پارٹنر ہے، اس لئے اس پر تشدد نہیں بلکہ اس سے محبت کرو۔ اور عورت کو یہ بتایا جائے کہ شوہر کی عزت کیا کرو، اس سے بلاوجہ الجھنے سے پرہیز کیا کرو لیکن اگر شوہر وحشی پن کی سوچ رکھتا ہو اور تم پر تشدد کرے تو چپ چاپ سہتے مت رہنا، بلکہ واپس لوٹ آنا۔ تمہارے ماں باپ کے گھر کے دروازے ہمیشہ تمہارے لئے کھلے ہیں تم پر۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ 80 فیصد لڑکیاں اس لئے چپ چاپ تشدد سہتی رہتی ہیں کہ ماں باپ نے رخصتی کے وقت یہ الفاظ کہے ہوتے ہیں کہ "تمہاری سسرال سے میت ہی اٹھنی چاہیے"۔ صرف اس جملے کی وجہ سے وہ بیچاری ساری زندگی درد سہتی رہتی ہیں۔
نمر دو: اپنی اولاد کو بچپن سے نبی کریمؐ کی تعلیمات سے روشناس کروائیں اور انہیں بتائیں کہ ہمارے نبی کریمؐ نے کس طرح زندگی گزاری۔ بچوں کو نبیؐ کے اپنی بیویوں کے ساتھ سلوک کی تعلیمات سنائیں کہ کس طرح نبیؐ اپنی بیوی کے ساتھ گھر کا کام کاج کرواتے تھے اور ان سے غصے کی بجائے محبت سے پیش آتے تھے اور انہیں حدود کے اندر رہ کر ہر جائز خوشی مہیا کرتے تھے۔ کبھی حضرت عائشہؓ سے دوڑ لگانا تو کبھی بھرے مجمع میں اس بات کا اظہار کرنا کہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ پیار اپنی بیوی سے ہے۔ یہ فقط اس لئے تھا کہ میری امت اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ ہم لوگ جب اپنی نسلوں کو نبیؐ کی تعلیمات دیں گے تو وہ بیویوں سے محبت کریں گی۔
نمبر تین: گھریلوں تشدد کے خلاف سخت سے سخت قانون بنائے جائیں اور جو کوئی اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کی جرات نہ ہو۔ ایک بار کسی وحشی کو سزا دے کر دیکھ لیں، ان شا اللہ پھر کوئی ایسی خبیث حرکت نہیں کرے گا۔ عورت کا تحفظ لازمی ہے۔ اس کے بغیر ایک بہتر، ترقی یافتہ پاکستان کا تصور ممکن نہیں۔
عورت محفوظ، معاشرہ محفوظ