ترجمان دفترِ خارجہ نے بھارت اور امریکا کے مشترکہ بیان میں پاکستان کے حوالے کو گمراہ کن، غیر ضروری اور سفارتی اصولوں کے خلاف قرار دے دیا۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ بیان میں پاکستان کے ذکر کے مقاصد سیاسی ہیں۔
گزشتہ روز بھارت اور امریکا مشترکہ بیان میں پاکستان سے متعلقہ امور پر بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان بھارت کو نشانہ بنانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے اور پاکستان یقینی بنائے کہ اس کے زیر اثر کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے امریکا اور بھارت کے مشترکہ بیان پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیان میں پاکستان کے ذکر کے مقاصد سیاسی ہیں۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں وحشیانہ ظلم سے ہٹ جائے۔
دفترِ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا بھارت مشترکہ ریفرنسز سفارتی آداب کے منافی اور سیاست زدہ ہیں۔ حیران ہیں کیونکہ امریکا کے ساتھ کاونٹر ٹیررزم تعاون جاری ہے۔ ہم حیران ہیں کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف قریبی تعاون کے باوجود اسے شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق کسی بھی قسم کی الزام تراشی مکمل طور پر غلط ہے۔ امریکا بھارت مشترکہ بیان خطے کی کشیدگی اور عدم استحکام کے کلیدی ذرائع حل کرنے میں ناکام ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکا بھارت مشترکہ بیان مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی سنگین صورتِ حال کا بھی نوٹس لینے میں ناکام ہے۔ ہمیں تشویش ہے کہ امریکا بھارت کو جدید عسکری ٹیکنالوجی منتقل کر رہا ہے جس سے خطے میں عدم توازن بڑھے گا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے آج وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی کہا تھا کہ نریندر مود کو صدر جو بائیڈن نے مدعو کیا تھا۔ ایک مرتبہ پھر انہوں نے بھارتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور ہرزہ سرائی کی، یہی مودی تھا جس نے بھارتی گجرات میں دہشت گردی کرائی اور اقوام متحدہ نے اس پر پابندی لگائی۔
وزیردفاع کا کہنا تھا کہ ہم نے پرائی جنگ میں حصہ لیا اور دہشت کو گھسیٹ کر اپنے گھر لائے۔ امریکا کے لئے جنگیں انویسٹمنٹ ہوا کرتی ہیں۔ آج بھی یورپ میں جو جنگ جاری ہے وہ انویسٹمنٹ ہے۔ ہماری پہلی پالیسی فراڈ تھی۔ہم 9/11 کے بعد ان کے اتحادی بنے اور آج جو ملک میں دہشت گردی ہورہی ہے یہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ آج بھی پاکستانی قوم امریکی حلیف ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ آج جو اسٹیٹمنٹ شائع ہوئی وہ سابق دور حکومتوں کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔حکومت وائٹ ہاؤس کے اعلامیہ کا جواب ضرور دے گی۔