سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ جلسے، جلوس اور دھرنے کی اجازت دینا مکمل طور پر ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔ عدالتیں پٹیشن اور سوموٹو کے ذریعے حکومت کے ہاتھ پائوں نہ باندھے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت کو سپریم کورٹ میں دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے کہ آپ کا اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا اختیار ہے، جسے ہم استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو دھرنے کی اجازت دے یا نہ دے، 144 لگائے یا نہ لگائے کیونکہ اس نے دارالحکومت کی حفاظت کرنی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر کیوں چیف جسٹس ایسے معاملات میں پٹیشن لگا کر ایک خاص بنچ کو ہی کیوں اس کی سماعت کیلئے لگاتے ہیں؟ گورنمنٹ کو اس معاملے میں کل واضح موقف اختیار کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ہاتھ کاٹ کر عدلیہ کو نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر رانا ثناء اللہ میں طاقت ہے تو ان کو صبح سپریم کورٹ میں کہنا چاہیے کہ یہ میرا کام ہے، مجھے اسے کرنے دیا جائے، میں اس معاملے میں آپ کی کسی صورت ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں جو بنچ تشکیل دیا گیا ہے وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ صبح ساڑھے 9 بجے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے معاملے کی سماعت ہوگی۔ تحریک انصاف کی ساری نظریں اس وقت عدالت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ ان کو صبح عدلیہ سے اجازت مل جائے گی۔ کنٹینرز ہٹانے کے آرڈرز ہو جائیں گے۔ گیم آن ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب حکومت کا یہ موقف ہے کہ کیا سپریم کورٹ یہ گارنٹی لے گی کہ عمران خان اسلام آباد آ کر کچھ غیر آئینی اقدام نہیں کرینگے کیونکہ اگر کوئی مسئلہ ہو گیا تو پھر ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہرایا جانا ہے۔
سینئر تجزیہ کار رضا رومی کا کہنا تھا کہ مزمل سہروردی درست کہہ رہے ہیں کہ یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔ اس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں یہ بات طے شدہ ہے کہ لا اینڈر آرڈر کا قیام خالصتاً ایگزیکٹو کا کام ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں ایسی موشگافیاں نہیں چلتیں۔ ہمیں نظر آنے والی سرخ بتی کسی بھی وقت سبز ہو سکتی ہے۔
پروگرام کے دوران شریک گفتگو عامر غوری کا کہنا تھا کہ عمران خان آج جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کی سیاست کیلئے بڑا اہم موڑ ہے کیونکہ دھمکیاں دیتے دیتے انہوں نے اپنے سینگ جہاں پھنسا لئے ہیں، اس کا فیصلہ اب دوسری پارٹی کرے گی کہ کیا کرنا ہے۔
عامر غوری کا کہنا تھا کہ عمران خان کی آخری امید یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی لیڈرشپ کے اندر دراڑ ڈال کر ان پر اتنا دبائو بڑھایا جائے کہ یہ سارا نظام ہی لپیٹ دیا جائے۔ ہو سکتا تھا کہ یہ حکومت جلد الیکشن کی تاریخ دے دیتی لیکن جب سے چند ملاقاتیں ہوئی ہیں، اس کے بعد حکومت نے حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اپنی مدت پوری کریں گے۔