"جان کی قیمت ، پچاس روپے"

پچھلے کچھ ہفتوں سے میرے گھر کے باہر رینجرز سنیپ چیکنگ کے لئے کھڑی ہوتی ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ کمانڈو بہت چاق و چوبند ہیں اور تعینات ایسے ہوتے ہیں کہ مجرم کو آسانی سے نہیں دکھتے. مگرسوال یہ اٹھتا ہے آخر شہر میں ایسی کیا وبا پھیل گئی ہے جو ایک کامیاب آپریشن ناکامی کی جانب ہے. آخر ہم کراچی جیسے بڑے شہر میں، ہر گلی ہر کونے میں تو سندھ رینجرز کی خدمات نہیں لے سکتے ہیں.

سندھ رینجرز کے کراچی آپریشن کو لے کر عوام اور سیاستدانوں میں ملے جلے تاثرات تھے. جہاں ایک طرف واہ واہ تھی، دوسری طرف تنقید کی تھو تھو بھی تھی. کچھ نے کہا یہ ایک طرفہ ہے، تو کچھ نے کہا ڈرامہ ہے. حقیقت بہرحال یہی رہی کہ شہر کے حالات درست ہو گئے. رینجرز اور عوام دونوں ہی اس بات سے انجان تھے یا شاید ابھی بھی ہیں کہ ہر جرم ملٹری آپریشن سے ختم نہیں ہو سکتا.

کچھ جرائم کی جڑ مجرم سے نہیں، بلکہ مجرم کے حالات سے جڑی ہوتی ہے، جن کا حل نہ ہمارے پاس ہے نہ کراچی کی سڑکوں پر کھڑی رینجرز کے پاس!

اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، آج سے دو روز قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والا میجر لاریب گل کا قتل. میجر لاریب کو مبینہ طور پر موبائل چھیننے کی واردات میں G 9 کے علاقے میں، مزاحمت کے دوران مار دیا گیا.

کچھ ہی گھنٹوں بعد، شہر قائد، کراچی سے خبر آئی کہ فرسٹ کلاس کرکٹر خلیل الرحمن کو بھی چھینا جھپٹی کی واردات میں قتل کردیا گیا.

یوں دو ہنستے بستے خاندانوں نے اپنے جوان سالہ بیٹوں کی لاشیں دیکھیں!

 بوڑھے والدین نے بیٹے کی یونیفارم پر میڈل سوچے ہونگے، فوج میں ترقی سوچی ہوگی، یا شہادت کا رتبہ سوچا ہوگا. یہ لیکن کبھی نہیں سوچا ہوگا، نہ شاید لاریب نے خود سوچا ہوگا کہ وہ آرمی کمانڈو ہونے کے باوجود سڑک کنارے ایک 50 روپے کی گولی کا نشانہ بن جاۓ گا.

خلیل الرحمن جیسا فرسٹ کلاس، ابھرتا ہوا قابل کرکٹر بھی وقت سے پہلے زندگی سے آوٹ ہو گیا کیونکہ کسی کو اس کی جان سے زیادہ اس کا مال پیارا تھا. کیا خلیل کے پیاروں نے سوچا ہوگا کہ وہ کندھوں پر اٹھا کر اس کی جیت کا جشن منانے کے بجائے اس کا جنازہ کندھوں پر اٹھائیں گے؟

اسلام آباد صرف دارالخلافہ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے خوبصورت اور محفوظ ترین شہروں میں سے ہے. ان سب کے باوجود اس محفوظ ترین شہر میں ہی محافظ کا قتل ہوگیا. کراچی، جہاں ہر جگہ سندھ رینجرز اپنا بوریا بستر لگا کر رکھتی ہے، وہاں بھی شہریوں کا قتل، لوٹ مار کی وارداتوں کا بازار گرم ہے کیونکہ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں!

کسی بھی جیتے جاگتے انسان کا بے وجہ قتل کر دینا، اپنی جان بھی داؤ پر لگانا، کوئی آسان بات نہیں ہوتی ہے. قتل واردات کی بنیاد پر ہو یا ٹارگٹ کی، ہر قتل کی قیمت ہے.

پچھلے دو ماہ میں، ملک میں مہنگائی کی شرح 11% ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ IMF کے مطابق یہ شرح 13% تک جا سکتی ہے. ہم جب ان اعداد و شمار کو اور گہرائی میں دیکھتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ شہری علاقہ جات میں  کھانے پینے کی اشیا سالانہ بنیاد پر 14%، ماہانہ بنیاد پر ڈیڑھ فیصد پر بڑھ رہی ہیں. 

دیہی علاقوں کی مہنگائی کی شرح سالانہ طور پر 15% اور ماہانہ بنیاد پر ڈھائی فیصد بڑھ رہی ہے.

بات نکلے گی تو دور تلک جاۓ گی!

ملک میں ٹماٹر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے، یہ قیمت عام دنوں سے تقریباً 35٪ زیادہ ہے. انڈے، دال، آٹا، اور ایسی کئی بنیادی کھانے پینے کی اشیا پر مہنگائی کا مہاراجہ بیٹھا بانسری بجا رہا ہے.

جس ملک میں اوسط تنخواہ سترہ ہزار، اور خاندان چھ سے سات افراد پر مشتمل ہوں، اور نوکری کے مواقع نہ ہونے کا برابر ہوں، وہاں سڑک پر ہونے والے جرائم کی شرح بڑھنا یقینی بات ہے. ایمپلائرز فیڈریشن پاکستان کے مطابق، حکومت کی جانب سے شائع کردہ بیروزگاری کی 5٪ شرح غلط ہے جو کہ صحیح معنوں میں تقریباً 15٪ بنتی ہے.

آج صبح کی خبروں کے مطابق ملک میں بڑے پیمانے پر لگے کارخانوں نے چھ فیصد پیداوار کے نقصان کی رپورٹ فراہم کی ہے جو اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ملک میں بیروزگاری اور غربت اور بڑھے گی. اس کے باعث، پاکستان میں بڑے سرمایہ داروں کا ملکی پیداوار میں حصّہ اب صرف 10٪ رہ گیا ہے، جو کہ پچھلے انیس سالوں میں سب سے کم ہے.

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے ملک اس مشکل دور سے نکل جاۓ گا، انہیں قوم کے جذبے اور ساتھ کی ضرورت ہے.

خان صاحب، خدا آپ کا چولہا گرم رکھے، پیٹ میں دال روٹی رہے تو حب الوطنی کی باتیں اچھی لگتی ہیں. جب گھر میں بیمار مہنگی دوا نہ ملنے کے باعث مرجائے، بچہ فیس نہ دینے کی وجہ سے گھر میں بیٹھ جائے، نومولود ویکسین نہ ملنے پر مر جائے، اور ساتھ میں بجلی پانی گیس کے بل جیب میں پڑے پڑے گل جائیں، تو ملک محبوب نہیں لگتا ہے.

آپ کتنی ہی رینجرز تعینات کر دیں، پولیس کو عام شہری کو مارنے کی آزادی دے دیں،جب تک مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی، جان سستی ہوتی رہے گی کیونکہ ٹماٹر 80 روپے پاؤ ہے، اور ایک گولی 50 روپے میں دستیاب ہے!