وہ لمحہ جب نوجوان عامر خان کو امریش پوری نے جھاڑ پلادی

وہ لمحہ جب نوجوان عامر خان کو امریش پوری نے جھاڑ پلادی
 

امریش پوری اب جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ پچھلے کئی منٹوں سے فائٹ سین عکس بند کروارہے تھے لیکن ہر بار بیس برس کا اسٹنٹ ڈائریکٹر انہیں روک کر یہی کہتا کہ ایک ٹیک اور کرلیں ۔ امریش پوری کا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا لیکن وہ ضبط کیے جارہے تھے۔ امریش پوری چپ تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فلم کے ہدایتکار ناصر حسین جو بالی وڈ  فلموں کے کامیاب ترین ہدایتکار تصور کیے جاتے ہیں۔ جن کے نام کے آگے ’  تم سا نہیں دیکھا ’  جب پیار کسی سے ہوتا ہے’  کارواں ’   یادوں کی بارات ’  ہم کسی سے کم نہیں اور زمانے کو دکھانا ہے جیسی سپر ہٹ فلمیں جڑی ہوئی تھیں۔

جبکہ خود امریش پوری اِس وقت تک بالی وڈ کے شہرہ آفاق ولن کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔ بالخصوص ہالی وڈ کی فلم  ‘ انڈیانا جونز اینڈ دی ٹیمپل آف ڈوم ’ میں کام کرنے کے بعد تو وہ ساتویں آسمان پر اڑ رہے تھے۔ بھلا ایسا کون سا پروڈیوسر نہیں ہوگا جو انہیں اپنی فلم میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو۔ فلمیں ہی نہیں، ہن بھی ان پر خوب برس رہا تھا  جبھی امریش پوری کے نخرے بھی ہوگئے تھے ۔  اب ایسے میں نو آموز اسٹنٹ ڈائریکٹر ان سے یہ کہے کہ وہ منظر کے تسلسل کا خیال نہیں رکھ رہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریش پوری کے کے غصے اور تناؤ کا۔ نوجوان تو یہاں تک کہہ رہا تھا کہ  ماردھاڑ کے اس کلائمکس میں مکالمات کی ادائیگی میں پختگی اور تسلسل کا فقدان ہے۔ امریش پوری کا دھیرے دھیرے پارہ بلند ہونا شروع ہوگیا۔ سیٹ پر موجود ہر شخص خاموش تھا اور یہ خاموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہی مانی جارہی تھی۔ جو امریش پوری کے مزاج اور طبیعت سے واقف تھے وہ انتظار میں تھے کہ کب ان کے اندر کا لاوا پھٹتا ہے۔

قصہ ہے 1985میں نمائش پذیر ہونے والی فلم  ‘ زبردست ’  کا۔ جس میں امریش پوری کے علاوہ سنجیو کمار ’  سنی دیول ’  جیا پردا ’  رتی اگنی ہوتری اور راجیوکپور تھے۔ یہ بطور ہدایتکار ناصر حسین کی آخری فلم تھی۔ جس کا  کلائمکس اس نوجوان اسٹنٹ ڈائریکٹر کی پسند کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے تعطل کا شکار تھا۔ جب ایک مرتبہ پھر  نوجوان نے امریش پوری کو بتایا کہ جب وہ مکا چلاتے ہیں تو پچھلے منظر کے مطابق اس کی پوزیشن کہیں اور ہوجاتی ہے تو امریش پوری کے اندر جو لاوا پک رہا تھا وہ آخر کار ابل ہی پڑا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نوجوان اسٹنٹ ڈائریکٹر ناصر حسین کا بھتیجا ہے۔

انہوں نے اس لحاظ کو ایک طرف رکھا اور اپنی مخصوص پاٹ ڈار آواز میں کم و بیش چلا کر بولے  ‘ کیا کنٹونٹی ۔۔ کنٹونٹی کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ صحیح تو کررہا ہوں۔ اتنی باریکیاں کوئی نوٹ نہیں  کرتا۔ ’    امریش پوری کی گرج چمک کے ساتھ آواز نے ہر ایک کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ ہر کوئی سانس روکے کھڑا تھا ’  اندازہ تو تھا بات یہاں تک ضرور پہنچے گی ۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ اس وقت سیٹ پر ناصر حسین موجود نہیں تھے۔ ورنہ عین ممکن تھا کہ معاملہ کسی اور رخ نکل جاتا۔

ٹکٹی باندھے سیٹ پر موجود افراد کو اس وقت حیرت ہوئی جب نوجوان اسٹنٹ ڈائریکٹر نے انتہائی تحمل مزاجی اور پرسکون لہجے میں امریش پوری کومخاطب کرکے کہا ‘ سر کوئی نوٹ کرے نہ کرے لیکن میری تسلی نہیں ہورہی  میں اس وقت اسٹنٹ ڈائریکٹر کے ساتھ فائٹ کے مناظر بھی عکس بند کرانے کی ذمے داری نبھا رہا ہوں۔ تعاون تو کرنا پڑے گا آپ کو۔

’    امریش پوری اب اور طیش میں آگئے۔ جو تیز رفتار ی کے ساتھ اس نوجوان کی طرف بڑھے اور کہا  ‘ دکھاؤ۔۔ مانیٹر پر کہاں میری غلطی ہے؟ ’   امریش پوری کے اس سوال پر اسٹنٹ ڈائریکٹر کا پرسکون انداز جیسے انہیں اور جلال میں لے لیا۔ جس نے اب سر سے پی کیپ اتاری اور جہاں امریش پوری کھڑے تھے وہاں گیا اور کہنا شروع کیا۔  ‘ سر یہ دیکھیں۔ جب آپ اِس کیمرے سے مکا مارتے ہیں تو آپ کے ہاتھ کا اینگل یہاں ہوتا ہے اور جب دوسرے کیمرے سے ہم اِسی منظر کو عکس بند کرنے آتے ہیں تو آپ کا ہاتھ اُس جگہ پر نہیں ہوتا جہاں پہلے کیمرے سے شوٹ کیا گیا تھا۔ ’  نوجوان اسٹنٹ ڈائریکٹر نے باقاعدہ ہاتھوں کے اشاروں سے بتا یا تو جیسے امریش پوری کاغصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ ایک دم پگھلنے لگے ۔

امریش پوری کی ایک خوبی یہ تھی کہ اگر وہ غلطی پر ہوتے تو اسے تسلیم کرتے۔ چند لمحوں تک وہ اس نوجوان کو بغور دیکھتے رہے اور پھر چلتے ہوئے نوجوان کی جگہ پر گئے۔ مکا مارنے کی دو تین ریہرسل کیں اور پھر مسکراتے ہوئے بولے  ‘ تم صحیح کہہ رہے تھے میں ہی غلط تھا ’  مجھے اندازہ ہوا کہ میرا ہاتھ ضرورت سے زیادہ نیچے  جانب ہورہا ہے۔ اگر تم تیار ہو تو شوٹ کرتے ہیں پھر سے ۔

اب نوجوان اسٹنٹ ڈائریکٹرکے مسکرانے کی باری تھی۔ جس نے انگوٹھا لہرا کر اپنی رضا مندی ظاہر کی۔ سیٹ پر موجود کئی افراد حیران تھے کہ اس نے کس طرح اتنی چھوٹی سی بات نوٹ کرکے امریش پوری جیسے اداکار کو مجبور کیا کہ وہ اس کے مطابق شوٹ کریں۔ یہ بیس برس کا نوجوان کوئی اور نہیں عامر خان تھا۔ جو ‘ زبردست’   اور  ‘ منزل منزل’   میں اپنے ہی چچا ناصر حسین کے پروڈکشن ہاؤس میں  اسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہا تھا اور پھر اگلے چند برسوں بعد وہ خود ہیرو بن کر بڑے پردے کی زینت بنا۔

بدقسمتی سے ‘ زبردست’  باکس آفس پر زبردست کاروبار کرنے سے محروم رہی۔ یہ بھی حسین اتفاق ہی ہے کہ عامر خان نے یوں تو ہر اداکار کے ساتھ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے کم و بیش ہر ولن کے مقابل ایکشن کے جلوے لٹائے  لیکن جب تک امریش پوری حیات رہے کبھی بھی وہ نہ تو ان کے ولن بنے نہ کسی اور کردار میں ان کے مقابل آئے۔ گو کہ 1994میں ریلیز ہونے والی فلم  ‘ دامنی ’ میں عامر خان بطور مہمان اداکار بن کر جلوہ گر ہوئے لیکن وہ بھی ایک ہی گیت میں جس میں دور دور تک ان کا سامنا امریش پوری سے نہیں ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ عامر خان نے فلم نگری میں قدم رکھنے کے بعد امریش پوری کی اس گھن گرج کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی کو دل سے لگا لیا تھا۔ اب یہ ذاتی عناد تھی یا پھر قسمت کہ  امریش پوری اور عامر خان کبھی  یکجا نہ ہوئے۔ یہ  تو عامر خان ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔