دو سالہ طویل المدتی خاموشی کے بعد بروز اتوار آل پارٹیز کانفرنس میں لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے قائد مسلم لیگ ن و سابق وزیراعظم نواز شریف نے وہ کہہ ڈالا جس کی آج تک کسی اور سیاسی رہنماء نے جسارت و جرات تک نہ کی۔ نواز شریف کے اس خطاب سے متعلق سینئیر صحافی حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب صائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ "اے پی سی پیچھے رہ گئی، تقریر بہت آگے نکل چکی ہے"۔
اس خطاب میں میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ سے لے کر عدالتوں تک پر تنقید کی اور انتخابی عمل میں مبینہ طور پر سیکورٹی اداروں کی مداخلت سے لیکر خارجہ پالیسی تک کو ہدف تنقید بنا ڈالا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ ریاست کے اندر ریاست سے بات نکل کر ریاست سے بالا ریاست تک جا پہنچی ہے، اور ملک کے اندر متوازی حکومت قائم ہے۔ جبکہ ہماری جنگ وزیراعظم عمران خان سے نہیں بلکہ ہماری جدوجہد اُس کو ملک و قوم پر مسلط کرنے والوں کے خلاف ہے۔ مزید برآں اُن کا کہنا تھا کہ اگر انتخابی نتائج میں تبدیلی نہ کی جاتی تو عمران خان کی حکومت کبھی معرض وجود میں نہ آتی۔
میاں صاحب کی اس تقریر نے تو جیسے کھلبلی مچادی۔ بعد ازاں حکومتی وزراء نے مشترکہ پریس کانفرنس میں نواز شریف کے بیان کو پاکستان مخالف اور پاک فوج کیخلاف طفل جنگ قرار دے دیا اور کہا کہ یہ تقریر ملک دشمن عناصر کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔
میاں صاحب کے بیان کے رد عمل میں بعض حلقوں کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اس طرح بیان بازک لندن میں بیٹھ کر سکتے ہے بہتر ہوتا کہ سابق وزیراعظم پاکستان میں اس طرح بیانات دیتے۔ ایسا کہنا میرے خیال میں سراسر غلط ہے کیونکہ میاں صاحب نے اپنی نااہلی کے فوری بعد سے ایسے بیانات داغنے شروع کیے تھے۔
کرپشن کیسز کا سامنا کرتے ہوئے ۹ جنوری ۲۰۱۸ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے شیخ مجیب الرحمن کو محب وطن قرار دیا اور کہا سقوط ڈھاکہ میں ملوث بنگالی رہنماء تحریک پاکستان میں بانی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں اور آزادی و الگ وطن کی جدوجہد کی مگر بعد ازاں انصاف کے فرسودہ نظام اور غیر جمہوری قوتوں کے عمل دخل نے ان کو افسردہ کردیا اور ۱۹۷۱ میں عوام نے سقوط ڈھاکہ کی شکل میں اس کا نتیجہ دیکھا۔ اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ جمہوری حکومت کے خلاف جب جب بغاوت ہوئی ججوں نے مارشل لاؤں کو باہیں پھیلا کر خوش آمدید کہا۔ انہوں نے آمروں کا کڑا احتساب کرنے مطالبہ بھی کیا۔
اسی طرح ۱۲ مئی ۲۰۱۸ کو انگریزی اخبار ڈان میں سیرل المیڈا کیساتھ شائع ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ تب تک ملک نہیں چلایا جاسکتا جب تک دو یا تین متوازی حکومتیں ہوں۔ جبکہ ممبئی حملہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں کیا اُن کو اجازت دی جانی چاہئیے کہ وہ سرحد پار جاکر ۱۵۰ لوگوں کو قتل کرے؟ جس کے بعد ہندوستانی میڈیا نے پاکستان کے خلاف اندھا دھند الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی۔
میاں صاحب کے حالیہ بیان سے صاف واضح ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
کیونکہ ان کے حالیہ بیان میں کچھ نیا نہیں بلکہ ساری وہی پرانی باتیں دہرائی گئیں جو انہوں نے عدالت سے قید کی سزا ملنے سے پہلے بھی کئی مواقع پر کی تھی۔
جیسا کہ ۹ جنوری ۲۰۱۸ کو اسلام آباد کے احتساب عدالت کے باہر میاں نواز شریف نے جیسے کہا تھا کہ مجھے اتنے زخم نہ دو کہ میں شیخ مجیب الرحمن بن جاؤ۔ تو واقعی میاں صاحب، شیخ مجیب تو نہیں بن گئے؟
اور اگر ایسا ہے تو یہ کافی پریشان کن بات ہے۔ اس سے قبل کہ دیر ہوجائے بہتر ہوگا تمام فریقین انتشار ست بچنے کیلئے مل بیٹھ کر باہمی گفتار کے ذریعے اس بحران سے نکلنے کا حل ڈھونڈ نکالے۔ اور ایک ایسا میکانزم و نظام تشکیل دیا جائے جس کے بعد کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت نہ کر پائے۔ بصورت دیگر کوئی نیا سیاسی بحران کسی صورت پاکستان و جمہوریت کیلئے نیگ شگون نہ ہوگا۔