اگر غربت کا حل آپ کے پاس نہیں تو کم از کم عوام کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو تو کم کر دیں۔ خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لینے والوں کے اندر ظالمانہ تفریق کو ہی ختم کر دیں۔ غریب کے نام پر لئے گئے قرضوں میں ان کا جائز حصہ ہی مختص کر دیں۔
ابھی چند دن قبل آپ کی اپنی بنائی ہوئی کفایت شعاری بارے کمیٹی نے جو سفارشات پیش کی ہیں جن سے متعلق خبروں کے ذریعے سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق خادم پاکستان نے اتفاق بھی کیا ہے مگر اس کو کابینہ میں لے جانے یا کوئی حکم صادر کرنے کی بجائے اسی کمیٹی کے ارکان کو تجویز دے دی کہ وہ سٹیک ہولڈرز سے بات کرکے ان کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔
کاش آپ حکومت اور حکومتی کارندوں کے اضافی اخراجات اور عیاشیوں کو کم کر کے عوام کے سامنے کوئی ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ آتے اور پلاٹوں اور مراعات کے نام پر عوام کا چوسا ہوا خون ان کے جسموں سے نکال کر خزانے میں جمع کروانے کے بعد عوام پر بوجھ ڈالنے کی سعی کرتے تو عوام بھی بخوشی اس کو قبول کر لیتے۔ مگر افسوس کہ سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے سامنے تو جی حضوری میں اپنے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے کو بھی بھول جاتے ہیں مگر عوام کا نچڑتا ہوا خون روکنے کے لئے ان کی ٹانگیں کانپنا شروع کر دیتی ہیں۔
فضولیات اور عیاشیوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کو بند کر کے قوم کو ممکنہ ایک ہزار ارب کا تحفہ پیش کرتے ہوئے کفایت شعاری کا درس دیتے تو شاید اس کا اثر بھی ہوتا مگر پر عیش ماحول میں بیٹھے ہوئے پالیسی سازوں کو کیا خبر کہ عوام گزارہ کیسے کر رہے ہیں۔ ان کو تو صرف اپنی فضول خرچیوں اور عیاشیوں کے بند ہونے کی فکر نے پریشان کیا ہوا ہے۔ عوام کو ملکی اخراجات کا حقیقی مختصر جائزہ ہی پیش کر دیتے تو شاید تمہارے ضمیر کو ایک لمحے لے لئے ملامت کا سامنا ہو پاتا۔
اخراجات کو کم کرنے کی بات پر تجاویز اور لیت و لعل سے کام اور عوام پر مہنگائی کا بم گرانے میں اتنی جلدی۔ یہ کہاں کا اخلاص یا حکمت عملی ہے؟ اخراجات کم کرنے کی بات پر وزیر خزانہ ابھی بھی 'گا، گے، گی' کے چکروں سے نہیں نکل پا رہے اور ان کے سارے کے سارے سابقہ دعوؤں کی تکمیل کو عوام کی آنکھیں ابھی بھی ترس رہی ہیں۔
عوام پر ٹیکس کی مد میں اضافی بوجھ ڈالنے سے پہلے عوامی احوال پر کوئی سروے ہی کروا لیا ہوتا۔ کبھی ہسپتالوں میں محض خوراک کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا معصوم بچوں کا شمار ہی معلوم کر لیا ہوتا۔ غربت کے سبب خود کشیوں پر مجبور عوام اور اجڑتے گھروں کا اندازہ ہی لگوا لیا ہوتا۔
کوئی بھی معاشرہ غربت میں تو زندہ رہ سکتا ہے جیسے پچھلے 75 سالوں سے عوام اس ظلم کی چکی میں پس کر بھی حکمرانوں کی عیاشیوں کو سہارا دیے ہوئے ہیں مگر ناانصافیوں اور امتیازی سلوکوں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔
انصاف اور مساوات کا آغاز سربراہان کے عمل سے شروع ہوتا ہے نہ کہ ان کے کھوکھلے دعوؤں سے جن کا پرچار 75 سالوں سے اور خاص کر پچھلے 5 سالوں سے ہو رہا ہے۔ جس قوم کے قسمت سازوں کو قیام پاکستان سے سفارش، رشوت اور بدعنوانی کی گھٹی سے لے کر کمیشن کی لت کی عملی تربیت سے آراستہ کیا گیا ہو تو پھر ان سے ایمانداری اور اصلاح کی امیدیں وابستہ کرنے سے بڑا بھونڈا پن نہیں ہو سکتا۔
جب تک مرض کے سرطان کو ختم نہ کیا جائے محض دلاسے کچھ نہیں کر سکتے۔
نظام انصاف کی مصنوعی پارسائی شرم ساری سے بالا اپنے گناہوں کو توہین عدالت کے قانون کے پیچھے چھپانے کی کوشش میں استحقاق کو تو خوب جانتی ہو مگر اپنے عہدے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی کم ظرفیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کئے ہوئے ہو اور پھر اپنے رازوں پر سے پردہ اٹھنے پر ندامت کی بجائے اپنی طاقت کی نمائش پر بضد ہو تو پھر ایسی ریاستوں میں فیصلوں کی بنیاد دلیل کی طاقت سے نہیں بلکہ طاقت کی دلیل سے ہی ہوتے ہوئے سمجھے جاتے ہیں اور آج انصاف کے معیار کا زمانہ گواہ ہے کہ ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں۔
جس ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا چپڑاسی اپنی برتری جتانے کے لئے ایک پروفیسر سے یہ پوچھے کہ 'یہ تو بتائیں تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟' اور ایک پروفیسر کو اس کی اعلیٰ تعلیم پر طعنہ دیا جاتا ہو تو اس ملک کے اندر کردار سازی بہت مشکل ہوتی ہے۔ جہاں ان پڑھوں، جاہلوں اور کم عقلوں کو اہل علم، دانشوروں اور قومی معماروں کو چڑانے کے لئے شوخیوں کا سامان مہیا کر کے دلوں پر تیر چلانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے وہاں معاشروں کی اصلاح کی امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی ایسے ماحول سے انصاف کی امیدیں لگائی جا سکتی ہیں۔
ہمارے نظام عدل کے کارناموں کی وجہ سے آج تنقید کے ہار اس کا مقدر بن چکے ہیں اور اس گل پوشی میں کوئی بھی سیاسی جماعتوں سے لے کرعام عوام تک پیچھے نہیں ہے اور اس کی عزت افزائی کی مہک نظام کے اندر سے بھی آ رہی ہے۔ جن کی ہمدردیوں میں اپنی عزت کو داؤ پر لگایا گیا آج وہی عدم اعتماد اور گواہیوں پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر انصاف کا دامن نہ چھوڑا ہوتا تو آج دشمن تو کیا دوست بھی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھانے کے قابل نہ ہوتے بلکہ انصاف پسند ہونے کی گواہیاں دے رہے ہوتے۔
آخر اس ملک میں مراعات اور وظیفوں کا معیار کیا ہے؟ جو قانون بنانے والے اور اس پر عمل کروانے والے ہیں انہوں نے اس کے سارے کے سارے مفادات کو اپنے ساتھ ہی پیوستہ کر کے رکھا ہوا ہے۔ جن عدالتوں کے فل کورٹ ریفرنس اپنی مراعات اور وظائف اس طرح بڑھاتے ہوں جس کی مثال دنیا میں ناپید ہو تو ان سے انصاف کی امیدیں وابستہ کرنا ایک دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔
اگر ہو سکے تو پارلیمنٹ کی کینٹین کے نرخ، حکمرانوں کا اور عام شہری کے رہن سہن کا تقابلی جائزہ بھی اپنے خطاب میں کبھی عوام اور قوم کے سامنے رکھ دیجئے گا یا وزیر اعظم ہاؤس اور کابینہ میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا قوم کے اساتذہ کی تنخواہوں سے موازنہ بھی ملاحظہ کر لیجئے گا شاید آپ کو سمجھ آ جائے کہ اس قوم کی اخلاقی حالت اتنی ناساز کیوں ہے۔
جس ملک کے حکمرانوں کے دفاتر اور رہنے کی جگہ کا نام ریڈ زون ہو اور وہاں ایک عام آدمی کا داخلہ بھی ممنوع ہو وہاں برابری اور مساوات کی بات کرنے سے بڑی منافقت کیا ہوسکتی ہے۔ کیا یہاں صرف عوامی نمائندوں کی جانیں ہی قیمتی ہیں اور جن کے نام پر وہ یہ عہدہ اور حیثیت رکھتے ہیں وہ اچھوت ہیں تو پھر کیا ہم مسلمان کہلوانے کا بھی حق رکھتے ہیں؟
جس ملک کے اندر مراعات، وظیفوں اور پلاٹوں کی بندر بانٹ کا مرکز ہی اختیارات کے استعمال کرنے والوں کی ذات تک محدود ہو کر رہ گیا ہو وہاں کی ہوس اور تنگ نظری کی مثالیں کبھی کفایت شعاری کا ماحول نہیں پنپنے دیتیں۔
جس ملک میں قرض کے حصول کو ہی اپنی کامیابی کی صلاحیتوں کے ادراک کا درجہ مل چکا ہو وہاں خود کفالت کی بات کرنا دیوانگی بن کر رہ جاتا ہے اور پھر قرض کے پیسوں سے ایسا شاہانہ انداز زندگی پیش کیا جاتا ہو جس سے شہنشاہ بھی دنگ رہ جائیں تو پھر مردہ ضمیری کی اس سے بڑی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔
جس ملک کے اندر امتیازی فرق ہی بڑے اور چھوٹے ہونے کی درجہ بندی ہو اس ملک کے اندر کس طرح اچھائی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جس ملک کے اندر ترقیاتی کاموں سے لے کر صحت اور تعلیم تک کی پالیسیاں بنانے والوں کے رہن سہن کا یہ حال ہو کہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والوں کے کمرے تو کیا واش روم بھی ان کے امتیازی سلوک کی گواہی پیش کر رہے ہوں وہاں کی سوچ سے وجود پانے والی پالیسیوں سے ملک کے اندر برابری اور بھائی چارے کے پروان چڑھنے کی امیدوں سے وابستگی اور اس کے ثمرات کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔
اسلام کے نام کو بیچنے والو! کیا خلیفہ وقت نے حلوے کی پلیٹ اپنے سامنے دیکھ کر خاتون اول سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ یہ کہاں سے آیا ہے تو جواب ملا کہ روزانہ کی خوراک سے تھوڑا تھوڑا بچا کر جو اکٹھا کیا تھا اس سے یہ حلوہ تیار کیا گیا ہے تو خلیفہ وقت کا جواب یہ تھا کہ اس کا مطلب ہوا کہ اگر سرکاری خزانے سے لئے جانے والے وظیفے سے اگر اس مقدار کو کم کر دیا جائے تو بھی گزارہ چل سکتا ہے اور وظیفہ میں سے اتنی مقدار کم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
آج کے حکمرانوں کی اضافی عیاشیاں اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والی مراعات کو کم کرتے ہوئے ٹانگیں کانپنا شروع کر دیتی ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ غریب کا کھایا ہوا مال اور چوسا ہوا خون اگل دیں وگرنہ یہ انگلیاں ڈال کر اگلنا پڑے گا۔ عوامی غضب کا مروڑ زیادہ دور نہیں اور جب یہ اٹھے گا تو کسی بڑے سے بڑے خزانہ خور کا پیٹ بھی اس مروڑ سے خود کو بچا نہیں پائے گا۔ آج کے انفارمیشن کے دور میں ہر ایک کے رابطوں اور گٹھ جوڑ کی قلعی کھل چکی ہے اور اگر کوئی ابھی بھی سمجھتا ہے کہ اس کے کرتوت عوام سے پوشیدہ ہیں تو اس کبوتر کا کیا کیا جا سکتا ہے۔
ہوسکے تو کوئی عملی نمونہ پیش کر کے اس ملک و قوم پر رحم کی مثال قائم کریں وگرنہ بھونڈے نعروں اور منافقانہ سیاسی دعوؤں سے اس ملک کی تقدیر بدلنے والی نہیں۔