پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے؛ 'ہم یا کوئی نہیں'۔ لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کے کیے کا کفارہ اگر کوئی چاہے بھی تو ادا نہیں کر سکتا کیونکہ بلڈی سویلین خواہ وہ عوام ہوں یا سیاست دان، اب قربانی کے قابل ہی نہیں رہے۔ اگر کسی نظام میں بحران یا خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو اس کا حل بھی ممکنہ طور پر نکل آتا ہے۔ لیکن اگر کسی نظام میں پیدائشی خرابی موجود ہو تو پورے نظام کو دوبارہ سے تعمیر کرنا پڑتا ہے، ورنہ اوپر سے چاہے کوئی جتنے جتن کر لے، اندر خرابی موجود رہتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ہم نے ایک گیریژن ریاست پر اسلام کی لیبارٹری سے لے کر جمہوریت تک کئی لیبلز چسپاں کرنے کے کوشش کی لیکن چلا ایک بھی نہیں اور نہ آئندہ چلے گا۔ جب تک ہم اسے دوبارہ کھول کر اس میں وہ کل پرزے لگا نہ دیں جو ظاہری لیبلز اور اس کی بنیاد پر بنے رہنما اصول کے مطابق نہ ہوں۔ زیادہ سوچنے کی بات نہیں، بس ایک لمحے کیلئے غور فرمائیے کہ اگر بکتربند گاڑی کے ڈھانچے اور انجن پر لینڈ کروزر کی باڈی رکھ کر ایک سویلین کو لینڈ کروز کی ہیلپ بک کے ساتھ دے دی جائے تو بھلا وہ اس کو کیسے چلا سکے گا؟
فوجی اسٹیبلیشمنٹ نے ہمیشہ سے وقتاً فوقتاً ایک سویلین کو اقتدار کی گدی پر یہ بتانے اور ثابت کرنے کیلئے بٹھایا کہ وقت آنے پر اس کو اناڑی ثابت کرکے خود سیٹ پر یہ کہہ کر بیٹھ جائیں کہ کیا کریں مجبوری ہے اس کو چلانا۔
اس بہروپی روایت میں اصل میں تبدیلی کا سنہرا موقع سوویت یونین کے سقوط کے بعد والا زمانہ تھا، جب امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا نے اپنا بڑا نظریاتی ہدف حاصل کیا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ہوا کے گھوڑے سے اتر کر زمینی حقائق کا ادراک کر کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے، کشمیر کو پاکستان بنانے اور افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے جیسے رنگین خوابوں کے بجائے موجودہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں عوامی جمہوری ریاست میں بدلنے پر کام شروع کرنا چاہئیے تھا۔ اس خود فریبی اور خود کشی کے منصوبے، جس نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے، کو چھوڑنے پر دنیا منہ مانگی قیمت، مدد اور تعاون دینے پر آسانی سے آمادہ ہو سکتی تھی، لیکن اس میں اگر نقصان تھا تو وہ جرنیلوں، مذہبی سیاست دانوں اور طارق جمیلوں کا۔
ایک محکمے کی حکمرانی اور اس سے وابستہ ہزار افراد کی اقتدار کی ہوس نے کروڑوں افراد کی زندگی عذاب بنا کر ان کی اور ان کی آنے والی نسل کا مستقبل تاریک کر دیا۔ آج اگر یہ اپنا ایٹم بم بھی سرنڈر کریں تو وہ قیمت نہیں ملنے والی جو ریاست کو صحیح طرح سیاسی اور معاشی ٹریک پر ڈال سکے۔
اول تو وقتی فیصلوں کے علاوہ اس ریاست کو ایک نارمل ریاست بنانے کی سنجیدہ سوچ آج بھی موجود نہیں ہے۔ اور اگر اس پر کام شروع بھی کیا جائے تو آسان نہیں ہو گا۔ یہ میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ 75 سال کی شب و روز کی محنت سے اسٹیبلشمنٹ نے جو ذہنیت پیدا کی ہے وہ کسی بٹن دبانے سے ختم ہونے والی نہیں۔ اس نے مذہب کو اپنی سیاسی ڈھال بنا کر پورے معاشرے کو منافقت پر مجبور کیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ذاتی طور پر متقی، ایمان دار اور دیانت دار بننے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے لیکن ظاہری طور پر ایسا نظر آنے کیلئے ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ پچھلے تیس چالیس سالوں سے تیز رفتاری سے مذہبی محفلیں، مجلسیں، مدرسے، اور تبلیغی مرکز بنے ہیں۔ عمرہ، حج کرنے والوں، نمازیوں اور داڑھی رکھنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ عین اس عرصے میں اس تناسب سے بلکہ زیادہ اضافہ بے ایمانی، بدعنوانی، رشوت ستانی، دھوکہ بازی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری میں بھی ہوا ہے۔
کرپشن کی بین الاقوامی فہرست میں پاکستان کا نمبر اس امر کا ایک ثبوت ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ مذہب کا صرف سیاسی استعمال کر رہے ہیں۔ تقویٰ، دیانت داری اور ایمان داری تو تب آتی ہے جب عقیدے کا تعلق بندے اور خالق کے درمیان براہ راست بغیر کسی خوف اور لالچ کے ہو۔ لیکن اس معاشرے میں جہاں سیاست میں مقبولیت، مالی اور اخلاقی سکینڈل سے نکلنے کیلئے ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر نماز پڑھنا شروع کی جاتی ہے، حج اور عمرہ پر جا کر اس کی تصاویر اور ویڈیوز جاری کر کے گناہ سے توبہ کرنے کے بجائے اس کو اپنے عیب چھپانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سماج اور ریاست کی جڑیں کھوکھلی نہ ہوں تو اور کیا ہو۔
مگر اب جو نظر آ رہا ہے کہ اس مرحلے سے نکلنے کی کوشش نظر آتی ہے مگر درست روش پر چلنے کی کوشش نظر نہیں آتی۔ وگرنہ جو ریاست مختلف مسائل اور بحرانوں میں ڈوبی ہوئی ہے وہاں 444 بے گناہ انسانوں کو ماورائے آئین جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرنے والے راؤ انوار اور ان کے 16 شریک جرم افراد کو اس طرح عدالتوں سے بری نہیں کیا جاتا۔ اس بدنام زمانہ قاتل کو پنڈی کے بڑے اور محفوظ گھر میں پناہ نہ دی جاتی اور ملک کی سپریم کورٹ میں پروٹوکول کے ساتھ پیش نہ کیا جاتا۔ وہاں پر ایک منتخب ممبر پارلیمنٹ علی وزیر کو ایک فوجی جنرل کی انا کی تسکین کیلئے دو سالوں سے جیل میں نہ رکھا جاتا۔ آج پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر فواد چودھری کی گرفتاری کی صف ماتم بچھی ہے، صبح سے لائیو کوریج اور پرائم ٹائم شوز چل رہے ہیں لیکن علی وزیر کی قید اور راؤ انوار کو بری کرنے پر کوئی ایک لفظ بولنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
اس کے باوجود ایک بزرگ پختون سیاست دان محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر یہ کہا ہے کہ اس طرح سے ملک نہیں بچے گا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر پہلے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ ملک کس نے اور کیسے چلانا ہے۔ لیکن پنجابی میڈیا کی نظر میں راؤ انوار کے شکار نقیب اللہ محسود اور دیگر چار سو سے زیادہ بے گناہ انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ علی وزیر کی اور نہ ہی محمود خان اچکزئی کی۔ پنجاب، اس کی فوج اور میڈیا کو اس بات پر سوچنا چاہئیے کہ نہ تو آپ نے پختون اور بلوچوں کو فتح کیا ہے اور نہ ہی تم اپنے زور بازو پر ان پر حکمرانی کر سکتے ہو۔ جن بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر آپ کو یہاں حکمرانی کرنے کیلئے وسائل ملے تھے، شاید اب وہ بند ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں تم مفتوح اور قابض سوچ کے ساتھ مزید حکمرانی نہیں کر سکو گے، نہ ہی جبر و استحصال کر سکو گے۔ اگر بھائی بننا ہے تو مل بیٹھتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے پختونوں کی نمائندگی کر کے اپنا آخری پیغام دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اس پیغام کو نظر انداز کرنے کی قیمت بھی آپ کو ادا کرنی ہو گی، پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔