ممبران نے اپنی بات کی لاج رکھ لی اور چودھری شجاعت نے اپنی بات کی بلکہ پرویز الٰہی اور شجاعت دونوں نے ہی اپنی روایات کا مان رکھ لیا اور کسی کو بھی گھر سے خالی نہیں بھیجا۔
چودھری پرویز الٰہی نے پی ڈی ایم کی بھی مٹھائی کھا لی اور عمران خان کو بھی خوش کر دیا۔ شجاعت نے اگر اپنا وعدہ نبھا لیا تو ساجد بھٹی نے اپنی وفا نبھا دی۔ ممبران بھی نااہلی سے بچ گئے اور چودھری پرویز الٰہی بھی ووٹ کی اکثریت سے جیت گئے۔
چودھری شجاعت نے بھی پارٹی کے صدر ہونے کا حق اور اختیار جتا لیا۔ ڈپٹی سپیکر نے بھی کیا خوب فیصلہ کیا ہے۔ پرویز الٰہی کا دعویٰ بھی مان لیا کہ ان کے پاس اکثریت ہے اور پارٹی سربراہ کے خط کی بھی توقیر رکھ لی۔ اب اس کےعلاوہ وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ غیر جانبداری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کردی۔
وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی سب کی آرا پر آمین کہہ دی کہ اگر سب کو یہی مقصود ہے تو پھر ان کو وزارت اعلیٰ پر اعتراض کیا بھی کیا جا سکتا تھا۔ آصف زرداری کی نواز شریف کو منانے کی کوششوں کی بھی عزت رہ گئی۔ انہوں نے ہی تو نواز شریف کو پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ پر منایا تھا جس پر وہ اپنی ذمہ داری کو نبھانا جانتے تھے مگر پرویز الہیٰ کے سامنے اپنی مجبوریاں آڑے آ گئی تھیں۔
حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان حیرانگی کا اظہار کر رہے ہیں جو ہر کسی کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگر ان کو سینیٹ کے الیکشن اور دو دفعہ عدم اعتماد کے واقعات یاد ہوں تو اِسے مکافات عمل ہی سمجھیے۔ لیکن بقول ان کے تو حکومت ہی خاص فونوں پر چلتی رہی ہے تو وہ اختیار تو اب بھی ان کے ہی حق میں گیا ہے کیونکہ چودھری پرویز الٰہی فون پر ہی تو ان کے پاس آئے تھے۔
پھر ناراضگی اور حیرانگی کی کیا بات ہوئی خوش ہونا چاہیے تھا۔ سارے کہتے ہیں اس میں نقصان تو چودھری خاندان کا ہوا ہے، مگر میں سمجھتا ہوں وہ بھی ٹھیک ہی رہ گئے ہیں۔ اس وقت وہ ملک کی سیاست کا مرکز ہیں اور ہر کوئی ان کے در کا سوالی بنے ہوئے ہیں۔ ویسے صوبائی اسمبلی کے ممبران نے تو ان کو پورے ووٹ دیئے ہیں۔ اگر چودھری شجاعت کا پارٹی سربراہ کا اختیار آڑے آگیا ہے تو اس میں ممبران کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
عمران خان خود بھی تو پارٹی سربراہ ہیں اور ان کو اختیارات کے استعمال اور نتائج تو معلوم ہی ہیں جس کی بدولت ابھی چند روز پہلے ہی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ قائداعظم پھر بھی سمجھدار نکلی ہے، اپنے ممبران کو بھی بچا لیا ہے اور اپنی وزارتیں بھی بچا لی ہیں۔ وزارت اعلیٰ تو ان کو پھر بھی مل ہی جائے گی۔ عدالت سے ملے یا ریاضت سے ملے۔
عدل کی کمان سے 63 اے کے تیر تو پہلے ہی چل چکے ہیں اور عدالت اپنی تحریف بھی کرکے اپنے پاس رکھے ہوئے ہے جب چاہے گی جیسے چاہے گی اپلائی کر لے گی۔ مجلس قانون ساز پہلے ہی عدالت کے ہر فیصلے پر من وعن عمل کرنے کے لئے بہرصورت تیار بیٹھی ہے۔
انہوں نے جو کہا سر آنکھوں پر۔ ان کی مجال ہی کیا ہے۔ سب جانتے ہی ہیں ثاقب نثار کی زبان میں نظام انصاف کے الفاظ "دو تین ایم پی اے تو میں ویسے ہی گھر بھیج دونگا "ممبر پارلیمان کی جرات ہی کیا ہے جو عالی جاہ کے سامنے بولیں۔
ویسے فضل الرحمن اور مریم نے جو باتیں دبے لفظوں پریس کانفرنسز اور نجی محفلوں میں ہوتی تھیں وہ صاحبان منصفی تک پہنچا دی گئی ہیں۔ اب یہی کسر رہ گئی ہے کہ کوئی بنچ کے سامنے کھڑے ہو کر کہے کہ عزت مآب رہنے دیجئے ہمیں نہیں چاہیے ایسا انصاف۔
اگر انصاف کیا ہوتا تو آج ایک ریٹائرڈ موصوف منہ نہ چھپاتے پھرتے ہوتے۔ قدرت نے موقع دیا ہے زرداری صاحب کو سینیٹ کا اور پی ڈی ایم کو عدم اعتماد کا حساب پورا کرنے میں۔ سیاست میں اس طرح کے حساب کتاب تو چلتے ہی رہتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی سیاستدان ان سے سبق نہیں سیکھتا۔
قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے سفیر کے خط پر رولنگ دی تھی اور ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے ایک پارٹی کے سربراہ کے خط پر فیصلہ دے دیا۔ دونوں کی ایک بات مشترک ہے کہ دونوں ہی پی ٹی آئی کی جماعت کے ڈپٹی سپیکر تھے اور ایک پر تو پہلے ہی وہ خوش ہیں اس سے سب کچھ خود کروایا تھا اور اب دوسرے پر بھی اگر حوصلہ پڑے تو خوش ہو ہی لیں وہ بھی اپنا ہی تو ہے پھر کیا ہوا اگر اس نے تھوڑی سی سپریم کورٹ کے فیصلے کی آڑ میں اپنی مرضی کرلی ہے۔
بہرحال اس پر ڈنڈے اٹھائیں تو ان کی مرضی اور اگر خوشیاں منائیں تو ان کی مرضی۔ احتجاج کرنا چاہیں تو بھی ان کا حق ہے۔ مگر مولانا کے تھوڑا ہنستے ہنستے اور تھوڑا سنجیدہ رہ کر انتباہ کو سنجیدہ ضرور لینا چاہیے ۔ ویسے ان کی ایک بات پر میں بھی پی ٹی آئی کے ساتھ احتجاج کرونگا کہ ان کو تتلیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا وہ ان کے شایان شان نہیں اگر تو ان کے بقول ان کا آنٹیوں کی طرف اشارہ ہے تو خواتین کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ ویسے تتلیاں لفظ کوئی خاص برا بھی نہیں البتہ اگر خواتین کو اچھا نہ لگے تو ہم ان کے ساتھ ہیں۔ یوتھیوں کو کہنا ان کا حق بنتا ہے کیوں کہ وہ بھی ان کو ڈیزل کہنے سے باز نہیں آتے۔
ایسوں کا علاج ایسا ہی ہوتا ہے جو اچھی روایت تو بہرحال نہیں ہے۔ لگتا یوں ہے کہ پی ڈی ایم نے اب بوجوہ مجبوری ویسا ہی جارحانہ انداز اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے مزید حکیم رانا ثناء اللہ کی گولیوں کا بھی ذکر کیا جس کو ایک مزاح کا رنگ بھی دیا جا سکتا ہے مگر شہباز شریف کو یہ کہنا کہ وہ غیر ضروری شریف بنے ہوئے ہیں کچھ عجیب ضرور ہے کیوں کہ شریف تو ان کے نام کا حصہ ہے تو اس کے اثرات کردار میں بھی تو ہونے چاہیں۔
لیکن یہاں ہو سکتا ہے انہوں نے شہباز شریف کا نام لے کر پی ڈی ایم کی پالیسی کا اظہار اور اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہا ہو جو پہلے کچھ مصلحتوں کی نظر تھا مگر اب اپنے ہی غلط فیصلوں سے اپنا ہی بھٹہ بٹھا کر ضمنی الیکشنز کے نتائج ان کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ اب وہ حتی الوسیع انتخابات کو لیٹ کرنا چاہتے ہونگے تاکہ عوام کا درجہ حرارت کچھ کم ہو جائے۔
مگر چونکہ یہ درجہ حرارت تحریک انصاف کے حق میں ہے لہذا وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اس طرح یہ اب سیاست کے ساتھ ساتھ جارحیت کے مقابلے کا بھی ماحول بن رہا ہے جو کسی بھی صورت میں کسی کے بھی حق میں نہیں۔ لہذا تحریک انصاف کو بھی حکیم کی گولیوں کا مقابلہ حکمت سے ہی کرنا چاہیے اور اپنے رویے کو اب بدل لینا چاہیے۔
ایم این ایز ہوسٹلز، لاہور ہائی کورٹ، موٹر وے اور پھر میریٹ جیسے واقعات سے ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ جارحیت کے مقابلوں سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں اور احتجاج کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا قومی اخلاق احتجاج کی سیاست کو وہ مقام نہیں دیتا جو ایک جمہوری ریاست کے اندر ہونا چاہیے اور اس میں تحریک انصاف کی چار سالہ تاریخ بھی قابل رشک نہیں۔ اپوزیشن کے احتجاجوں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ صحافیوں پر تشدد ہوا، اغوا ہوئے اور ان پر گولیاں چلائی گئیں۔
ویسے تو عمراں خان صحافیوں بارے کسی بھی طرح کے عمل دخل سے انکاری ہیں مگر ایک سربراہ کے طور پر اپنے آپ کو اس طرح سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ یہ تو ان کی ایک ادائے سیاست ہے جس میں یوٹرن ایک اہم خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور نہ ہی ان کے بارے کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے
شاید اسی لئے ان کا وہ صفحہ بھی پھٹ گیا ہے جس کے بل بوتے پر انہوں نے پونے چار سال نکالے ہیں اور اب ان سے ہی گلہ اوپر سے سونے پر سہاگہ۔ ان کے بارے بھی ہلکا سا انکشاف ہوا ہے کہ وہ کوئی ہلکا سا ٹچ دینا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی تردید بھی آگئی ہے۔ کچھ صحافیوں اور سیاستدانوں کی کامیابی کا راز ہی ان ہلکے ٹَچز اور دبنگ دعوئوں سے ہے جس کا فائدہ دونوں سمتوں کو ہوتا ہے اس لئے یہ ادا چل بھی رہی ہے اور اس پر لوگ کان بھی دھرتے ہیں۔
بہرحال اب سب سیاستدانوں کو صحیح والی اصلی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمکش کی سیاست کو ختم کرنا چاہیے اور سنجیدگی وپختگی کے ساتھ اس کا آئینی حل ڈھونڈنا چاہیے تاکہ ملکی کی معیشت اور سلامتی خطرے سے باہر نکل سکے کیونکہ ملک مضبوط ہوگا تو ان کے سیاسی بکھیڑوں کو برداشت کر سکے گا۔