تحریر: (شنیلہ عمار) پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لندن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پائیدار ترقی کی طرف گامزن ہے۔اس بیان نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ جنرل صاحب کے نزدیک آخر ترقی کی تعریف ہے کیا؟ کیا ڈالر کی قیمت بڑھ جانا ترقی ہے؟ کیا اشیاء خوردونوش کا مہنگا ہونا ترقی ہے؟ کیا بجلی اور گیس کی قیمیتوں میں ہوش ربا اضافہ ترقی ہے؟ کیا پٹرول کاعام آدمی کی پہنچ سے دور ہونا ترقی ہے؟ کیا اسٹاک ایکس چینج میں سرمایہ کاروں کے اربوں ڈوب جانا ترقی ہے؟ کیا ادویات کی قیمتوں میں چار گنا اضافہ تر قی ہے ؟کیا 10 لاکھ لوگوں کا بے روزگار ہوجانا ترقی ہے؟ کوئی اس ملک کے عوام کو سمجھا دے کہ ترقی ہوتی کیا ہے؟
50 ہزار ماہانہ کمانے والے سے جا کر پوچھیں بھائی اس پائیدار ترقی کے ساتھ تم اپنا گھر کیسے چلا رہے ہو تو اس کے بعد وہ اس ترقی کی شان میں جو قصیدے پڑھے گا اس کو یہاں لکھا نہیں جا سکتا۔
اس مہنگائی نے نہ صرف دیہاڑی دار مزدور اور محنت کش کا جینا دوبھر نہیں کیا بلکہ ہر طبقہ فکر کوپریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسراس بجٹ نے پوری کردینی ہے جس میں ٹیکسوں کی اتنی بھرمار ہے کہ لگتا ہے کہ جلد ہی سانس لینے پر بھی ٹیکس لگ جائے گا۔ سب سے زیادہ ظلم تو تنخوادار طبقے پر کیا گیا ہے۔ 5 فیصد ٹیکس بڑھانے کا لالی پوپ تھما کر اس سے کہیں زیادہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔
پراپرٹی کا بزنس کرنے والوں کے پاس جاو تو انکے پاس سنانے کے لئے اپنا ہی دکھڑا ہو گا کہ نہ کوئی پراپرٹی خرید رہا نہ بیچ رہا ہے نہ کوئی گھر بنا رہا ہے نہ ملک میں کوئی تعمیراتی کام ہو رہا ہے۔ ایک مسلسل بے یقینی کی صورت حال ہے جس سے ہر کوئی پریشان ہے کہ کرے تو کیا کرے۔بزنس مین طبقے کی اپنی داستان غم ہےمارکیٹ میں بزنس کی ایکٹویٹیز نہ ہونے کے برابرہیں۔سرمایہ دار اپنا سرمایہ روک کر بیٹھ گیا وجہ شاید اس حکومت پر بےاعتباری ہے۔
ایک ہی شعبہ اس ملک میں فی الحال اس تبدیلی کی تباہ کاریوں سے بچا تھا وہ بینکنگ کا تھا، لیکن ایف بی آر کی موجودہ پالیسز اور وزیراعظم کی دھمکیوں کی وجہ سے لوگوں نے اس شعبے پر بھی اعتبارکرنا ختم کر دیا ہے۔ سرمایہ کاروں کا سرمایہ تیزی سے گھروں کے تہہ خانوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ بے یقینی اور نت نئے خدشات کے سبب بینک سے بالواسطہ اب ویسے بھی بہت سے بزنس مین کیش میں کاروبار کرنا شروع کرچکے ہیں۔
اس تباہ کن ترقی نے دس ماہ میں غریب کو غریب تر اور مڈل کلاس کو غریب اور اپر مڈل کلاس کو مڈل کلاس کے درجے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ہاں اس ملک کی اشرافیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔جو اربوں پتی ہے وہ ہی اس ترقی سے خوش ہیں ۔ جن کا سارا خرچہ سرکار کے کھاتوں سے اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چلتا ہیں وہ خوش ہے۔ان کو ہی یہ ملک ترقی کی جانب گامزن نظر آتا ہے۔ ترقی کے اصل ثمرات جاننا چاہتے ہیں تو پوچھیں ایک خاتون خانہ سے جو پہلے گھر بھی چلاتی تھیں۔ تقریبات میں بھی جاتی تھیں اور بچت بھی کرلیتی تھیں آج وہ صرف یہ دعا مانگ رہی ہوتی ہے کہ عزت کے ساتھ مہینہ گزر جائے۔ بچوں کی فیس،بلز،پٹرول،گھر کا راشن اور بیمار ہونے کی صورت میں دوائیاں وہ اخرجات ہیں جن سے منہ پھیرا نہیں جاسکتا۔ہزار روپے کا نوٹ لے کر نکلو تو بمشکل ایک دن کے راشن کا بندوبست ہوتا ہے۔ باقی خرچے اس کے علاوہ ہیں۔کپڑوں کے وہ تمام برینڈز جن کی مارکیٹ میں آتے ساتھ آن لائن بکنگ ہوجاتی تھی اب سیلوں پر پڑے ہوئے گاہک کا انتظار کرتے ہیں۔
ٹھنڈے ملکوں میں اورٹھنڈے کمروں میں تیار شدہ تقریروں میں حقیقت عموما چھپ جاتی ہے۔ اگرعوام میں رہ کر ان کے حالات جانے جائیں تو حقیقت واضح ہوتی ہے۔اس طرح کے گمراہ کن بیانات دے کر پاکستان سے باہر بیٹھے پاکستانیوں کو تو مطمئن کیا جا سکتا ہے لیکن جو عوام اس عذاب سے گزر رہی ہے وہ آپ کے اس دعوی کو کیسے مان لیں؟ کیسے وہ غریب مزدور اس ترقی کو مان لے جو پہلے کم ازکم 500 دیہاڑی کما لیتا تھا، آج سارا دن مزدوری کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ کیسے وہ تنخواہ دار مان لیں جو اتنے ٹیکسز کی بھرمار کے بعد موجودہ تنخواہ سے کم گھر لے کر جائے گا؟ کیسے وہ خاتون خانہ مان لیں جو پہلے سارے مہینے کی گروسری 10 ہزار میں لیتی تھی اب کچن کا خرچہ چلانے کے لیے 20 ہزار بھی کم پڑ رہے ہیں، جو پہلے سردیوں میں 2 ہزارگیس کا بل دیتی تھی اب 10 ہزار دے رہی ہے۔ وہ موٹر سائیکل سوار کیسے مان لیں جو 67 روپے کا لٹر پٹرول ڈلواتا تھا اب 113 کا لیٹر ڈلورہا ہے؟ کیسے وہ ماں مان لیں جس نے بیٹی کی شادی کے لئے سونے خریدنے کے لئے 50 ہزار رکھا تھا اب 80 ہزار کا تولہ ہو گیا ہے؟ کیسے وہ بزرگ مان لیں جنہوں نے حج کرنے کے لئے سارا سال رقم اکھٹی کی اب ان کو پتا لگا کہ وہ دوگنی ہوگئی ہے؟ آپ کے ترقی کے اس بیان کو اس مہنگائی میں پسے عوام کیسے مان لیں، جنرل صاحب جب آپ نے یہ دعوی کیا ہو گا تو آپ کے پیش نظر بھی کوئی اعدادوشمار ہونگے آپ ہمیں بھی وہ بتا دیں تاکہ ہم اس بیان کی حقیقت پر ایمان لے آئیں، ورنہ اقتصادی سروے کے مطابق تو پچھلے 10 ماہ کی ترقی کے تمام احداف منفی میں گئے ہیں۔
آخری میں میں اپنا گیس کا بل لگا رہی ہوں کہ دیکھے اس سردیوں میں میں نے پچھلی سردیوں کی نسبت تین گنا زیادہ بل دیا۔ اگر بلوں میں اضافہ ترقی ہے تو پھر میں مان لیتی ہوں کہ ہاں پاکستان پائیدار ترقی کی طرف گامزن ہے؟