پانی قدرت کے دئیے گئے تحفوں میں سے ایک انمول تحفہ ہے۔ اسکے استعمال سے زندگی اپنی بقا کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ زمین کو’نیلگوں سیارہ‘ کی حیثیت سے اہل ہنر یاد کرتے ہیں جسکا 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن قدرت نے اپنے نائبین کیلئے اسکا صرف تین فیصد حصہ پینے کیلئے مختص کیا ہے۔ باقی پانی سمندری نمک سے مالا مال ہے جسے ریفائن کرکے پینے لائق بنانا از حد مشکل کام ہے۔ اس آبِ حیات کا بیدردی سے استعمال خود کشی سے کم نہیں۔ کیونکہ انسانی جسم کو اپنی کارکردگی برقرار رکھنے کیلئے اسکی اشد ضرورت ہے۔
زمین پر پانی کے ذرائع بہت محدود ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں کہ پانی کا استعمال احتیاط سے ہونا چاہیئے تو در حقیقت ہم تمام دستیاب ذرائع کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ خواہ وہ ذرائع زیر زمین پانی سے تعلق رکھتے ہوں یا دریاؤں سے یا پھر گلیشئر سے۔ اس وقت ہمارے ملک میں سب سے بڑا خطرہ آبی بحران کا ہے۔ ہمارے آبی ماہرین پاکستان میں آبی قلت کے بڑھنے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔
دنیا میں قریب چھتیس ممالک ایسے ہیں جو آبی قلت کا سامنا دیر یا جلد کر سکتے ہیں۔ اس میں بد قسمتی سے پاکستان اب تیسرے درجہ پر پہنچ گیا ہے جو مستقبل قریب میں آبی قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ اسلامی قلعہ آبی وسائل سے بھرپور تھا جسکی سالانہ اوسطاً پانی کی دستیابی 5000 کیوبک میٹر بلحاظ حجم تھی جو اب گھٹتے گھٹتے 1000 کیوبک میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ آبی ماہرین خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ 2025 تک پانی کی دستیابی 500 کیوبک میٹر ہو جائے گی اور ملک شدید ترین آبی قلت کا شکار ہو جائے گا۔
نیل بوہن (Neil Buhne) جو کہ اقوام متحدہ میں پاکستانی معاشرے کے انسانی حقوق کا نگہبان ہے اسکی رپورٹ کے مطابق ’کوئی بھی ذی روح خواہ وہ 5000 گلیشئرز والے علاقے کا باشندہ ہو یا وہ جنوب میں پھیلے صحراؤں کا رہنے والا کوئی بھی ایسا نہیں جو اس آبی بحران سے خود کو بچا پائے گا‘۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ آبی ماہرین نے اس سنگین بحران سے حکومت وقت کو آگاہ نہ کیا ہو۔ اس سے بیشتر پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (P C R W R) نے پاکستانی گورنمنٹ کو آگاہ کیا تھا کہ 90ء کی دہائی سے پاکستان آبی قلت والی لائن تک پہنچ چکا تھا۔ اور 2005ء میں اس لائن سے آگے بڑھ چکا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم 90ء کی دہائی سے آبی قلت کا شکار ہونا شروع ہوئے ہیں لیکن ہماری بد بختی کہ جب تلوار سر پر لٹکنا شروع ہوئی تو ہم نے 2018ء میں کچھ اقدامات اٹھاتے ہوئے دو تین ڈیموں کی تعمیر کی طرف توجہ دی۔ لیکن اتنے وسیع پیمانے پر یہ تعمیر غیر معمولی لاگت اور بہت زیادہ وقت کی متقاضی ہے۔
کالا باغ ڈیم جو کہ ملک دوست پراجیکٹ ہے اس پر اگر تمام اختلافات کو بھلا کر کام شروع کیا جائے تو قریب چار سال میں یہ پاکستان کے آبی ذخائر میں بے تحاشہ اضافہ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ملک دوست منصوبہ چند ملک دشمن عناصر کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے۔ ان عناصر کا کام صرف اور صرف دشمن ملک کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ چند کالی بھیڑیں اپنی ذاتی اغراض کی بنیاد پر پورے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ اگر ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر سوچا جائے تو اس ڈیم کی تعمیر انتہائی ناگزیر ہے۔ اس سے پیدا ہونیوالی بجلی اوسطاً 3600MW ہے۔ جو کہ ملک کے اندھیرے دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کو آبی وسائل بھی مہیا کر سکتی ہے۔
پاکستان میں آبی مسئلہ کئی وجوہات سے مزین ہے جیسے آبادی میں بےتحاشہ اضافہ، موسمیاتی تبدیلیاں اور اس سے بڑھ کر سیاسی عدم استحکام یا میں اگر کہوں تو سیاسی نالائقی زیادہ مؤثر ہو گا۔ کیونکہ اتنے سنگین مسئلے پر سیاستدانوں نے عوامی سطح پر کوئی شعور اجاگر نہیں کیا۔
حالیہ دنوں میں ’انڈس رائیور سسٹم اٹھارٹی‘ نے ایک ہوشربا رپورٹ شائع کی ہے کہ ملک میں آبی وسائل کا ذخیرہ 30 فیصد کم ہو گیا ہے۔ پاکستان میں آبادی کے بڑھنے سے کئی سارے مسائل نے جنم لیا ہے۔ وہ ممالک جہاں آبادی کا تناسب کم ہے انکے آبی وسائل کسی طرح کے خطرے سے دو چار نہیں۔ اس مملکت عظیم کی 80 فیصد آبادی 24 بڑے شہروں میں سکونت پذیر ہے جنہیں مجموعی طور پر صاف پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ لیکن ہمیں اس وقت صاف پانی سے زیادہ صرف پانی کی ضرورت ہے جو کہ ہماری زراعت جیسی اہم صنعت کا پہیہ رواں رکھ سکے۔
خدا نخواستہ اگر ہم پانی کے اس مسئلے پر قابو پانے میں ناکام ہوتے ہیں تو ہمارا حال خشک سالی کا شکار ممالک جیسے ایتھوپیا سے بھی برا ہو گا۔ ہمارا نہری نظام انتہائی فرسودہ ہے، ہم دستیاب پانی کا بیشتر حصہ زرعی اجناس مثلاً کپاس، گنا ، گندم کی تیاری میں صرف کرتے ہیں۔ لیکن نہری نظام فرسودہ ہونے کی وجہ سے 60 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اسکی بڑی وجہ کچے کھالوں, ٹوٹا پھوٹا نہری نظام اور پرانا طریقئہ کاشت ہے۔ وہ ممالک جہاں جدید طرز کی آبپاشی کی جاتی ہے وہ اپنے پانی کا 50 سے 60 فیصد پانی بچانے پر قادر ہو چکے ہیں۔
انتہائی دکھ کی بات ہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔ کرۂ ارض پر درجہ حرارت کے بڑھنے سے آبی وسائل کو شدید خطرہ ہے۔ پاکستان کی ایک بڑی آبادی نیم بارانی علاقوں میں رہتی ہے جنکی زرعی ضروریات کا تمام تر انحصار بارش کے پانی پر ہے۔ ایک اور ہولناک وجہ یہ بھی ہے کہ رواں برس تقریباً 12 انچ برف باری ہوئی جسکے نتیجے میں لازمی طور پر بننے والی برف بھی کم ہو گی۔ زرعی ماہرین خریف کی فصلوں کے حوالے سے انتہائی پریشان کن اعداد و شمار مرتب کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس آبی ذخائر کے حوالے سے تین ڈیم ہیں منگلا، تربیلا اور چشمہ۔ یہ اگر بھرے بھی ہوں تو ان میں ضرورت کا پانی لگ بھگ سات دن زخیرہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ آبی ماہرین کے مطابق یہ صلاحیت کم سے کم سو دن تک کی ہونی چاہیئے۔ ہمارا پڑوسی ملک اپنی اس صلاحیت میں چھ ماہ سے زیادہ تک کا اضافہ کر چکا ہے۔ جبکہ امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک قریب قریب 3 سال تک اپنا آبی ذخیرہ رکھ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے بھی ہو ہم فی الفور ڈیمز بنائیں تاکہ وہ پانی جو ذخیرہ ہونے کی بجائے سمندر برد ہو جاتا ہے اسے قابل استعمال بنا کر اپنے آبی ذخائر میں اضافہ کر سکیں۔ اپنے نہری نظام کو مؤثر بنائیں تاکہ اس طریقے سے ضائع ہو نے والی پانی پر بھی قابو پایا جا سکے۔ درخت لگائیں تاکہ ماحول درجہ حرارت کی شدت سے زیادہ متاثر نہ ہو۔ عوامی سطح پر یہ شعور اجاگر ہونا چاہیئے کہ پانی کے استعمال میں اعتدال سے کام لیں تاکہ اس نعمت عظیم کے غیر ضروری استعمال سے بچا جا سکے۔ حکومت پر فرض ہے کہ وہ اپنے تمام تر وسائل پانی کی دستیابی پر جھونک دے۔ کیونکہ اس مملکت عظیم کو دہشت گردی سے اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے جتنا کہ آبی قلت سے اسکی بقا کو خطرہ ہے۔ ہمارے منصوبہ سازوں کو چاہئے کہ وہ جنگی اقدامات کرکے اس مسئلے کے حل پر سنجیدگی سے سوچیں۔ کیونکہ اسکا حل صرف ایک دن کی بات نہیں ہے۔
مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔