Get Alerts

وہ خود کو 'احمدی' کہتے ہیں۔ ہم انہیں قادیانی کہتے ہیں۔ ہم نے ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے، مجیب الرحمٰن شامی پھٹ پڑے

سوات واقعے پر بات کرتے ہوئے شامی نے کہا کہ مذہبی انتہا پسندی جو آپ عوام پر طاری کر کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں اس کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے۔ یہ رسولؐ اللہ کی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہے، ایسے لوگ گستاخانِ رسولؐ بھی ہیں اور گستاخانِ اسلام بھی۔

Mujib Shami Video on Ahmadis

پاکستان میں ایک اقلیت تو ایسی ہے جس کا ہم نام ہی نہیں لے سکتے۔ وہ خود کو ' احمدی' کہتے ہیں۔ ہم انہیں قادیانی کہتے ہیں۔ ہم نے ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ 'آپ کو ہم قربانی نہیں کر دیں گے، آپ کو نماز نہیں پڑھنے دیں گے، آپ کو بکرے نہیں خریدنے دیں گے، آپ 50 ہزار کا بکرا خریدیں گے، ہم 25 ہزار کا واپس لے جائیں گے، کیا تماشہ ہے؟ یہ کہنا تھا پاکستان کے سینیئر اور نامور صحافی مجیب الرحمان شامی کا۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ سوات میں ایک شخص کو ہلاک کر دیا گیا۔ وہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا، اس پر یہ الزام لگا کر کہ اس نے قرآن کے اوراق جلائے ہیں، اس کو مار دیا گیا۔ اب یہ بھی باتیں آ رہی ہیں کہ ہوٹل میں ایک ملازم نے اس کے کمرے سے کوئی چیز چوری کر لی تھی اور جب پکڑا گیا تو یہ الزام لگا دیا۔ حقیقت کچھ بھی ہو، جو بھی ہنگامہ کھڑا ہوا، جو ہجوم اکٹھا ہوا، جس طرح اس کو جلایا گیا، تھانے پر حملہ کیا گیا، یہ سب کیا ہے؟

شامی نے کہا کہ پورا پاکستان اس کو غلط کہہ رہا ہے۔ علامہ راغب نعیمی کا بیان ہے کہ یہ گھناؤنا فعل ہے۔ دیگر علما اور سیاستدان بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کا کام ہے کہ ان لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔

سینیئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی جو آپ عوام پر طاری کر کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں اس کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے۔ یہ رسولؐ اللہ کی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہے، ایسے لوگ گستاخانِ رسولؐ بھی ہیں اور گستاخانِ اسلام بھی۔ انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔

آئے روز مسیحیوں کے گھروں پر حملے ہوتے ہیں، بستیوں کی بستیاں جلا دی جاتی ہیں۔ ہم لوگوں کو پکڑتے ہیں لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ کتنے لوگوں کو سزا ملی ہے؟ سزا بھی تو ملنی چاہیے۔

"ایک اقلیت ایسی ہے جس کا ہم نام ہی نہیں لے سکتے ہوئی ہے ۔ وہ خود کو ' احمدی' کہتے ہیں۔ ہم انہیں قادیانی کہتے ہیں۔ ہم نے ان کی زندگی اجیرن کی ۔ 'آپ کو ہم قربانی نہیں کر دیں گے، آپ کو نماز نہیں پڑھنے دیں گے، آپ کے بکرے اٹھا لے جائیں گے، آپ 50 ہزار کا بکرا خریدیں گے، ہم 25 ہزار کا واپس لے جائیں گے، کیا تماشہ ہے؟ آپ کو عبادت گاہیں نہیں بنانے دیں گے۔ یہ ہمارے حافظ نعیم الرحمان صاحب، مولانا مفتی فضل الرحمٰن صاحب، منیب الرحمٰن صاحب، تقی عثمانی صاحب بیٹھیں، اور اس کی بھی حدود و قیود طے کریں۔ اس طرح نہ کریں کہ پاکستان کو ہندوستان بنا دیں۔ یہ ہندتوا والے دندناتے پھریں اور آپ چین سے بیٹھے رہیں۔"

شامی نے کہا کہ ہر شخص جو پاکستان کا شہری ہے، کسی مذہب، نسل، علاقت سے تعلق رکھتا ہو، اس کی جان، اس کے مال اور اس کی آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری ریاستِ پاکستان کی ہے۔

آپ نے ]احمدیوں[ کو اقلیت قرار دیا ہے لیکن ان کی بات تو سنیں، ان کے بھی شہری حقوق ہیں، ان کا احترام کریں۔ مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خوف کی چادر اتار پھینکیں، جو بات حقیقت ہے اس کو بیان کریں، اس سے ڈریں نا۔ نہ ہجوم سے ڈریں نہ بے لگام مذہبی رہنماؤں سے ڈریں۔ قانون میں یہ طاقت ہونی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو ڈرا سکے اور انہیں زندگی کے آداب سکھا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمیں یہ کرنا پڑے گا۔ ہمارا کام ہے آواز بلند کرنا۔ راغب نعیمی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ اور دیگر علما اور سیاستدان جو ہر وقت جلسے جلوس نکالتے ہیں، کوئی حکومت کو للکارتا ہے کوئی اپوزیشن کو، یہ ان نفرت کے تاجروں کی سرکوبی کریں۔ لوگوں کو مکالمے، بات چیت، استدلال کے ذریعے سے اپنا ہمخیال بناؤ۔ تبلیغ کا حق اس طرح ادا کرو جس طرح رسول اللہ نے کیا ہے۔ ان کی عبادت گاہوں، قبرستانوں پر حملے کر کے، ان کے دینی شعائر کا مذاق اڑا کر نہ کریں۔ اس کی پاکستان میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔

مجیب الرحمٰن شامی کے یہ الفاظ اس حوالے سے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ وہ خود بھی ہمیشہ سے دائیں بازو سے تعلق رکھتے رہے ہیں اور اسلامی نظام کے داعی ہیں۔ ان کی قومی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اس بہادرانہ گفتگو کو سوشل میڈیا پر بھی سراہا جا رہا ہے۔