کنول نصیر: دلوں میں اتر جانے والی آواز اور پاکستان ٹیلی وژن کی پہچان، الوداع

کنول نصیر: دلوں میں اتر جانے والی آواز اور پاکستان ٹیلی وژن کی پہچان، الوداع
ریڈیو کی مشہور براڈ کاسٹر اور صدا کار موہنی حمید کے گھر کے باہر اسلم اظہر کی گاڑی آ کر رکی ہوئی تھی، دوپہر کا وقت تھا۔ انتظار ہو رہا تھا 17 برس کی کنول حمید کا۔ ریڈیو پروڈیوسر فضل کمال کی درخواست والی پرچی موہنی حمید کے ہاتھوں میں تھمائی گئی، جس میں لکھا تھا کہ ٹی وی سٹیشن کا آغاز ہونے والا ہے۔ صرف آج کے لئے کنول کو بھیج دیں تاکہ وہ باقاعدہ طور پر نشریات کا آغاز کروا دیں۔ کنول حمید کو جب اس خواہش کا پتا چلا تو انہوں نے بہانے تراشنے شروع کر دیے۔ فضل کمال جنہیں کنول ’ماموں‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، ان کی اس آرزو کے سامنے کنول نے باقاعدہ والدہ سے معذرت کر لی۔ جو بس یہ التجا کر رہی تھیں کہ فضل کمال کا کہنا ہے کہ صرف آج کی ہی بات ہے، اگلے دنوں کے لئے وہ کسی نہ کسی خاتون میزبان کا انتظام کر لیں گے۔ اسی لئے کنول سب کام چھوڑیں فوری طور پر جائیں۔ تھک ہار کر کنول نے ہتھیار ڈال دیے اور تھوڑا بہت تیار ہو کر اسلم اظہر کی اُس گاڑی میں بیٹھ گئیں، جس کی منزل ٹی وی سٹیشن کی عمارت تھی۔ ذکر ہو رہا ہے 26 نومبر 1964 کا جب لاہور سے باقاعدہ طور پر پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔

کنول حمید کا ابتدائی تعارف یہ رہا کہ وہ ریڈیو کی اُس براڈ کاسٹر اور صدا کار موہنی حمید کی صاحبزادی تھیں، جن کے پُراثر اور متاثر کن انداز کا ہر کوئی دلدادہ تھا۔ ریڈیو پر مختلف پروگرامز اور ڈراموں میں حصہ لیتی تھیں۔ چاہنے والے آپا شمیم کے نام سے جانتے تھے۔ ریڈیو کے مائیک سے کنول کا تعلق اُس وقت کا ہے جب وہ صرف ساڑھے تین ماہ کی تھیں۔ وہ بھی اس لئے کہ والدہ کو ایک شو میں روتے بچے کی آواز درکار تھی تو وہ اپنے ساتھ کنول کو لے گئیں، جنہیں باقاعدہ چٹکی کاٹ کر رلایا گیا۔ جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئیں، ریڈیو سے ان کا دوستانہ اور گہرا ہوتا چلا گیا۔

ریڈیو پاکستان لاہور میں بچوں کے شوز میں شرکت کرتیں۔ کوئی سات برس کی ہوں گی کہ ریڈیو پر باقاعدہ پروگرام بھی کرنے لگیں جس کا معاوضہ انہیں چار آنے ملتا۔ کنول کی خوش قسمتی ہی تھی کہ انہیں اُس دور میں سلیم گیلانی، مختار صدیقی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، رفیع پیر، قتیل شفائی، امتیاز علی تاج، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم جیسی شخصیات کی سنگت ملی۔ ان ادیب، شعرا اور فنکاروں کا گھر میں آنا جانا تھا، جبھی کنول حمید کو بہت کم عمری میں انداز گفتگو کا ہنر آ گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ابتدا میں کنول کو اردو پڑھنا نہیں آتی تھی لیکن بعد میں انہوں نے اس پر دسترس حاصل کی۔



کنول حمید جب ٹی وی سٹیشن پہنچیں تو اسلم اظہر نے ان کا استقبال کیا۔ بتایا گیا کہ پہلے ان کا میک اپ ہوگا تو کنول حیرت زدہ ہو گئیں۔ وہ اب تک ریڈیو پر شو کرتی تھیں، جہاں آواز کا اتار چڑھاؤ زیادہ اہمیت رکھتا تھا، سجنے سنورنے پر تو کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ اب میک اپ کے لئے کمال الدین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جنہوں نے چند ہی لمحوں میں کنول حمید کا سولہ سنگھار کر کے سٹوڈیو روانہ کر دیا جہاں پہنچ کر ان کے لئے بھاری بھرکم کیمرے اور لائٹس تیار تھے۔ قد آور شیشے کے عقب میں نثار مرزا اور فضل کمال تھے۔ جنہوں نے کنول کو بتایا کہ جس کیمرے پر بتی جلے گی‘ اُس میں دیکھنا ہے اور پھر چند ہی لمحوں بعد کنول حمید پاکستان بھر میں ٹی وی سکرین پر نظر آئیں۔ رومن میں لکھے ہوئے انہوں نے یہ الفاظ ادا کیے ’خواتین و حاضرات آپ کو مبارک ہو آج پاکستان میں ٹیلی وژن آ گیا۔‘ یوں وہ ٹی وی کی پہلی خاتون اناؤنسر بن گئیں جنہوں نے آنے والے دنوں میں خبریں بھی پڑھیں۔

کنول حمید کے لئے یہ تجربہ خاصا خوشگوار تھا جب کہ ان کا پراعتماد انداز بیان تو ہر کسی کو بھا گیا۔ اسلم اظہر سے والدہ کی معرفت شناسائی تھی جنہوں نے ان کے اندر ایک نیا اعتماد اور ولولہ بھر دیا۔ کنول کے مطابق اسلم اظہر نے یہی کہا کہ جب بھی پاکستان میں ٹی وی کی تاریخ لکھی جائے گی تمہارا نام ضرور لیا جائے گا اور کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ کنول حمید نے والدہ سے زبان اور تلفظ کی ادائیگی کا ہنر سیکھ رکھا تھا، جبھی ٹی وی پر آنے کے بعد کبھی بھی انہیں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ کب کیسے آواز کا اتار چڑھاؤ کرنا ہے، کس الفاظ کا کیا تلفظ ہو، کس لفظ پر کتنا زور دینا ہے، یہ تو ان کے ریڈیو میں کام کے دوران وہ جان چکی تھیں۔


کنول حمید نے 1965 میں کرنل نصیر سے شادی کی۔ یوں وہ ٹی وی پر کنول نصیر کے نام کے ذریعے جلوہ گر ہوتی رہیں۔ اُن کی شادی کا بھی بڑا دلچسپ قصہ ہے۔ یکم ستمبر 1965 کو ان کا نکاح ہوا اور اسی دوران جنگ چھڑ گئی۔ جس کی وجہ سے ان کی رخصتی ٹل گئی اور جب حالات بہتر ہوئے تو ان کی زندگی کا نیا سفر شرو ع ہوا۔ کنول نصیر نے ٹی وی پروگراموں کی میزبانی ہی نہیں بلکہ تین ڈرامہ سیریلز میں بھی کام کیا لیکن پھر انہوں نے اداکاری سے توبہ کر لی۔ اس کی ایک وجہ وہ یہ بیان کرتیں کہ رومانی مکالمات کی ادائیگی میں انہیں خاصی دشواری ہوتی۔ بالخصوص ایسے فن کار کے مقابل، جن کے ساتھ ان کا اچھا دوستانہ ہوتا اور پروڈیوسرجب اُن سے رومانی مکالمے اور مناظر عکس بند کرتے تو وہ خود کو خاصی غیر موزوں سمجھتیں۔

ٹی وی سے منسلک ہونے کے باوجود انہوں نے ریڈیو سے ناطہ نہیں توڑا۔ لگ بھگ مسلسل نو برس تک ریڈیو سے انگریزی زبان میں پروگرام کرتیں۔ جس کی وہ میزبان ہی نہیں، پروڈیوسر اور اس کی تیاری بھی خود کرتیں۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتیں کہ ریڈیو ان کا اور والدہ کا درحقیقت پہلا گھر تھا۔ وہ اس بات پر بھی فخر محسوس کرتیں کہ جب 1969 میں اقوام متحدہ نے پہلی بار خواتین کا سال منایا تو پوسٹرز میں ان کی والدہ موہنی حمید کی تصویر نمایاں کی گئی۔

کنول نصیر نے مختلف ملکی اور غیر ملکی سربراہان مملکت کے اعزاز میں دی جانے والی تقریبات کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ پاکستان نیشنل کونسل کے تحت وہ مختلف ثقافتی طائفوں کے ساتھ کئی ملکوں کا دورہ کر چکی تھیں۔ کنول نصیر کو شکوہ تھا کہ ان دنوں نیوز اینکرز تلفظ پر توجہ نہیں دے رہے۔ جب کہ انہیں ابتدا میں ہی یہ بتا دیا گیا تھا کہ سانس کا استعمال کب اور کیسے کرنا ہے۔ جبھی ان کی آواز مٹھاس سے بھری اور انداز گفتگو میں اپنائیت کی جھلک ملتی۔ حکومت پاکستان نے ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا۔