حکومت کا اپوزیشن کے اراکین توڑنے کا دعوی غلط نکلا

حکومت کا اپوزیشن کے اراکین توڑنے کا دعوی غلط نکلا
حکومت کا اپوزیشن کے اراکین توڑنے کا دعوی غلط نکلا، اپوزیشن 3 کے علاوہ اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی میں لے آئی۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے 75 سے زائد اراکین اجلاس سے غیر حاضر تھے۔

قومی اسمبلی اجلاس میں ن لیگ کے تمام 84 اراکین ایوان میں آئے۔ پیپلزپارٹی کے 56 میں سے 55 اراکین موجود تھے ان کا ایک رکن جام کریم بیرون ملک ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے 15 سے 14 اراکین ایوان میں آئے۔ اے این پی اور بی این پی کے تمام اراکین موجود تھے۔

دو آزاد اراکین میں سے ایک موجود تھا کیونکہ ایک آزاد رکن علی وزیر جیل میں ہیں۔ اپوزیشن کے 162 مجموعی اراکین میں سے 159 اراکین ایوان میں موجود تھے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی اراکین کی تعداد 179 ہے۔ اس میں سے 75 اراکین غیر حاضر تھے، کئی وفاقی وزرا بھی نہ آئے۔

تحریک انصاف کے 63 اراکین اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے 7 میں سے 2 اراکین نے شرکت کی۔ مسلم لیگ ق کے تمام 5 اراکین غیر حاضر تھے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے 5 میں سے 3 غیر حاضر تھے۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ وفاقی وزرا شفقت محمود، مراد سعید سمیت کئی حکومتی اراکین غیر حاضر تھے۔

خیال رہے کہ آج ہونے والے اسمبلی اجلاس کا 15 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کیا گیا تھا جس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی شامل تھی۔ تاہم سپیکر اسد قیصر نے مرحوم اراکین کے لیے دعائے مغفرت کے بعد پیر 28 مارچ تک اجلاس ملتوی کردیا۔

اجلاس میں مرحوم اراکین اسمبلی، سابق صدر رفیق تارڑ، سینیٹر رحمان ملک، پشاور مسجد دھماکے میں شہید ہونے والوں اور وفات پانے والے دیگر اراکین کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری کی جانب سے دعائے مغفرت کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔

اسد قیصر کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی روایات کا حصہ ہے کہ اگر کسی رکن پارلیمنٹ کا انتقال ہوا ہو تو اس روز کا اجلاس ایک روز کے لیے ملتوی کر دیا جاتا ہے اور میں بھی اس روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک روز کے لیے اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر قوانین کے مطابق کارروائی کروں گا۔