مریم نواز نام لینے میں ماہر ہوتی جا رہی ہیں۔ لگتا ہے ان کو تو اس کی عادت ہی ہو گئی ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے بڑی پریشان کن بات ہے جن کے نام لیے جا رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو سابق جج ثاقب نثار سے پوچھ لیں۔
بدھ کی دوپہر مریم کے الفاظ آتشیں تھے لیکن وہ آگ بگولہ نظر نہیں آ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی آواز اونچی نہیں کی، لیکن انہوں نے ملک میں سیاسی اور عدالتی درجۂ حرارت کافی بلند کر دیا جب انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بازی پلٹنا شاید اسی کو کہتے ہیں، اور یہ بازی تو تھی ہی پلٹنے کے انتظار میں۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنے عدالتی عہدے اور قیمتی وقت کو ایک ڈیم بنانے کی خواہش کی نذر کر دیا، اس کے خلاف الزامات کا ایک ڈیم ابل کر باہر آ رہا ہے۔ وہ خواہش تو اب دم توڑ چکی لیکن سالوں پرانے الزامات جان نہیں چھوڑ رہے۔ استعارے میں بات کی جائے تو دوڑیں اب ثاقب نثار کی لگی ہوئی ہیں۔
لیکن کیا وہ اس چیز سے بھاگ پائیں گے جو ان کا پیچھا کر رہی ہے؟ پانچ سال قبل پاناما پیپرز کے شائع ہونے سے جو زہریلا آتش فشاں پھٹا تھا وہ اب تک تیزابی بارش کی بوندوں کی طرح برس رہا ہے۔ سیاست کو عدالتوں اور عدالتوں کو سیاست میں گھسیٹنے کے عمل میں اداروں کی آپس میں ڈور کچھ ایسی الجھی ہے کہ اسے سلجھانا مشکل ہو گیا ہے۔ یا شاید ناممکن۔ بدھ کو مریم نواز کی پریس کانفرنس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کامیاب جوان پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک جذباتی تقریر کی جس میں انہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ پاکستانی سیاست اس وقت دو انتہاؤں پر موجود بیانیوں میں گھری ہوئی ہے۔ ناظرین کو بطور کرکٹر اور سوشل ورکر اپنی کامیابیوں سے آشنا کرنے کے بعد، وزیر اعظم نے ثاقب نثار لیکس کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ شریفوں کی اپنی کرپشن چھپانے کی حکمتِ عملی کا ایک حصہ ہے۔
کاش بات ایسے ہی ہوتی۔
سیاسی جماعتوں کے باہمی لڑائی جھگڑے ایک طرف، تمام جوانب سے اب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ گذشتہ پانچ سال کے واقعات شفافیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اس دوران تمام محاذوں پر ایسا بہت کچھ ہوا ہے جو تفتیش کے دباؤ کو سہار نہیں پائے گا۔ تاریخ ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی جنہوں نے یہ فیصلے کیے۔ لیکن جہاں ہمیں تاریخ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا، دیگر مزید اہم واقعات نے اداروں، افراد اور ان کی ساکھ کو کچوکے لگانا شروع کر دیے ہیں۔ اور جیسا کہ ان معاملات میں ہوتا ہے، اصل چیز ٹائمنگ ہے۔
افسوس کہ جج ثاقب نثار ٹائمنگ پر قابو نہیں رکھتے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ روز بروز شدید ہوتی اس لڑائی میں وہ بھی کسی تیر کا نشانہ بن جائیں۔ آخر میں اس بات کی اہمیت نہیں رہے گی کہ انہوں نے آڈیو میں کیا کہا یا نہیں کہا بلکہ اہم یہ ہوگا کہ بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے پر ان کا پتلا کیسے گھسیٹا گیا۔ جج اب ایک ایسی عدالت میں کھڑا ہے جہاں ثبوت وہی ہوتا ہے جسے ثبوت مان لیا جائے۔ جب عوامی رائے خود ہی جج، عدالت اور جلاد بننے کا فیصلہ کر لے تو یہ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔
خاص طور پر جب اس رائے عامہ سے ایک نیا سیاسی راستہ بنانے کے لئے ایندھن کا کام لیا جا رہا ہو۔ ریڈ زون میں اب ان واقعات کی سرگوشیاں بڑھتی جا رہی ہیں جو آنے والے دنوں میں تمام پیشن گوئیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ بلکہ آنے والے مہینوں کے بارے میں دونوں اطراف سے اب زیادہ شدت سے بات چیت کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کو یقین ہے کہ صرف ثاقب نثار کا ڈیم ہی نہیں جو لیک کر رہا ہے۔
لیکن لیک کرنے اور بند ٹوٹ جانے میں فرق ہے۔ پی ڈی ایم میں موجود زیادہ زیرک لوگ اسے سمجھ رہے ہیں اور وہ اس حقیقت کے آشکار ہونے میں اپنا نقصان نہیں کروانا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار ملاقاتوں کے باوجود پی ڈی ایم مستقبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں لے پا رہی۔ اسے موقع کی بو آ رہی ہے، اس کا ادراک بھی ہے لیکن یہ آگے بڑھ کر اسے چھو نہیں سکتی۔ اگر یہ محض سراب ثابت ہوا تو؟ اتحاد کے اراکین کے ذہنوں میں خوف بیٹھا ہوا ہے۔ دودھ کا جلا چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور یہاں تو جلے بھی تین بار ہیں۔
لیکن پھر بھی، ایک بار پھر ممنوعہ پھل کو حاصل کرنے کی تڑپ ہے، جو انہیں مجبور کر رہی ہے کہ ایک بار پھر پتے جیسے بھی ہیں سب کچھ داؤ پر لگا کر ایک بازی کھیل لی جائے۔ وہی جواری کا نشہ جو اسی وقت اپنا رنگ دکھاتا ہے جب ہارنے کو کچھ نہ بچا ہو، ماسوائے سب کچھ کے۔
کم از کم ریڈ زون میں ہوتی سرگوشیوں کے مطابق جو کچھ بھی ہونا ہے، اب سے لے کر آتی بہار کے درمیان میں ہی ہونا ہے۔ اس کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کلینڈر پر ایک مخصوص سنگِ میل عبور کر لینے کے بعد حکومتی اتحاد، اپوزیشن اتحاد اور اداروں کا اتحاد سب ایک مخصوص انداز میں کام کرنے لگیں گے۔ ریڈ زون کی منطق اپنی پیچیدگی میں انتہائی سادہ ہے۔
اور وہ سادہ سی بات یہ ہے: اس سے پہلے کہ اپوزیشن اپنا کھیل کھیلے جس کے نتیجے میں وزیر اعظم کی روانگی کا پروانہ انہیں تھما دیا جائے، کیا عمران خان اگلے سال ایک طاقتور عہدے پر نئی تقرری کا نوٹیفکیشن کر سکیں گے؟ یہ بہترین چالوں کا کھیل ہے کیونکہ پتے دوبارہ پھینٹے جا چکے ہیں اور بڑی چالاکی سے بنائے گئے منصوبے ممکن ہے اب بھی کہیں زندہ ہوں۔
یہ ہے وہ منطق جو حالات کو اس نہج پر لے آئی ہے کہ ثاقب نثار جیسے مہرے جو کبھی اس پروجیکٹ میں شراکت دار تھے، اب پیادوں کی طرح اس خونی لڑائی میں بھینٹ دیے جا رہے ہیں جو ان کی ذات، ان کی خواہشات اور ان کی چھوڑی میراث سے کہیں بڑی ہے۔ جج صاحب کو ایک سرد مقام پر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
اندر کی خبر رکھنے والوں کے مطابق آگے کا رستہ اب بھی غیر واضح اور خطرات سے پر ہے۔ پی ڈی ایم پراعتماد دکھائی دے رہی ہے لیکن ہے نہیں، حکومت محفوظ دکھائی دے رہی ہے لیکن ہے نہیں، اور اسٹیبلشمنٹ اپنی سوچ میں یکسو دکھائی دے رہی ہے، لیکن ہے نہیں۔ ڈی چوک میں ٹریفک جام ہو چکا ہے اور پولیس وارڈن کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ سب ڈرائیور ہارن بجا رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں لیکن کوئی اپنی گاڑی کو ایک انچ بھی پیچھے ہٹانے کے لئے تیار نہیں۔ اس رستے پر ہم پہلے بھی چل کر دیکھ چکے ہیں اور اس کا اختتام اچھا نہیں ہوتا۔ دسمبر میں چیزیں واضح ہونے کا امکان ہے۔ لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی نہ کسی موقع پر یہ گرہ تو کھل جائے گی اور الجھن بھی سلجھ جائے گی لیکن تب تک یہ جنگ اپنی مرضی کی رفتار سے جاری رہے گی۔ اس دوران سپاہی اپنی ہی تلواروں سے کٹ کر گرتے رہیں گے اور لیڈر اپنے فیصلوں سے ڈوبتے اور ابھرتے رہیں گے۔ کیونکہ ایسی کہانیاں ایسے ہی چلتی ہیں جن میں کوئی ولن اور کوئی ہیرو نہیں ہوتے۔
فہد حسین کا یہ مضمون ڈان میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔